خرد کی گھتیاں سلجھا چکا میں

0
Post Ad
میں نے انسانوں کو راضی کرنے کے لئے دفعہ 370 ہٹا دیا ، اقلیتوں کے حقوق کو دباکر ان کے عقیدوں پر چھری چلا کر ، ان کی مسمار کرگئی مسجد کی جگہ ایک خوبصورت مندر بناكر ، یہاں تک کہ میراجی نہیں بھرا تو ایک نئی پارلیمانی عمارت بھی تعمیر کی ۔ میں اپنے خرد کی دی ہوئی رہنمائی میں ملک کے صدر کو بھی دعوت افتتاح عمارت پارلیمان دینے سے گریز کیا ـ میں نے ملک کا نام روشن کرنے کے لئے چندریان 3 کو چاند کے جنوبی قطب پر کامیابی کے ساتھ اتارا۔ غرض که میرے وسائل میں جنتا کچھ میسر تھا ، سب کچھ جھونک دینے کے بعد بھی میرادل سکون و چین سے خالی رہا اب میری بربادیوں کے چرچوں سے دنیا گونج رہی ہے دشمنوں نے INDIA بناكر میرے زخم کو تازه کیا ، میرے اندرون میں بد حواسی چھائی ہوئی ہے ۔ اس کے معالج کی کوئی صورت مجھے نظر نہیں آرہی ہے۔ زخموں کی تاب برداشت کرنے کی سکت سے محروم ہوچکا ہوں ۔ غالب سے معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑرہا ہے کہ
ہاتھوں میں  جنبش نہیں ہاتھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی کنول کا پھول میرے آگے
ان تمام کاوشوں کے بعد بھی میرے دل کو قرار نہیں ھے ۔ اب صرف ایک ھی راسته میرے لئے باقی رہ گیا ہے ۔ وہ یہ ہے کہ میں اپنے رب کی طرف پلٹوں ۔ کیونکہ مادی وسائل بہتات اور ان کے استعمال سے میرے ذہنی کرب میں اضافہ ہی ہوتا گیا اس لئے اب میں سوچ رہا ہوں کہ اپنے اس رب کر طرف رجوع کروں جس نے مجھے پیدا کیا نک سک سے درست کیا اورتمام مخلوقات میں سب سے بڑھ کر مجھے حسین اور خوبصورت بنایا ـ جس کا حکم کائناب کی ہر چیز پر چلتا ہے دن رات کا تسلسل اور جانداروں کی تخلیق کا عمل بھی اسی کے حکم سے ہوتا ہے
اے میرے رب میں اب سارے ہتھیار ڈال دیتا ہوں تیری غلامی قبول کرلیتا ہوں میری سانس جب رک جاتی ہے تو دنیا والے مجھے مرده قرار دیتے ہیں ،دفن کر دیتے ہیں ۔ میرا سب کچھ ختم ہوگیا تیری ذات ہی باقی رہنے والی ہے
میرے مولا ا مجھے صاحب جنوں کر ۔ میں تیرا محتاج ہوں ۔
اقبال نے اپنے رب سے عشق حقیقی کی دعا کی تھی ـ عشق حقیقی سے انسان صاحب جنوں ہو جاتا ہے اس کی بصارت ، بصیرت میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ نگاه عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر ہو جاتا ہے وہ زاویے خدائی سے دیکھتا ہے ۔ اس کے اخلاق و کردار میں مالک کے صفات کا انعکاس ہوتا ہے ۔ دراصل یہی وہ صفات الہیہ ہیں جو کشش کا باعث بنتے ہیں ـ اسکو بنی محترم نے یوں فرمایا تھاکہ میرا رب کہتا ہے کہ میں اسکا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے میں اس کا پیر بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے ـ میں اسکی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ،اسی مرحلے کو اقبال نے صاحب جنوں کہا تھا اقبال نے جذب اندروں پرکافی زور دیا ہے اور اس کا عنوان بنایا ہے عشق حقیقی ۔
عشق حقیقی ہی سے مسائل حیات حل ہوتے ہیں انسان سکون پاتا ہے قلب مطمین ہو جاتا ہے
ابن مسعود رضی الله عنه کا قول ہے کہ تم تین مواقعوں پر اپنے قلب کا جائزہ لو
ایک قرآن پڑھتے وقت
دوسرے ذکر کی محفل میں
تیسرے تنہائی میں
اگر ان تینوں مواقعوں پر اپنے پہلو میں قلب کون پاؤ ، یعنی تمہارا دل نہ لگے تو الله تعالی سے دعا کرو کہ وہ تمہیں ایک دل مرحمت عطافرمائے ، اس لئے کہ تمہارے پاس دل نہیں ہے ۔ مفکر اسلام سید ابولا علی مودودی ر ح نے ایک موقع پر کہا تھا کہ
زمانه جاہلیت میں بہت کچھ پڑھا تھا دنیا کی ایک اچھی خاصی لائبرری دماغ میں اتار چکا تھا ، لیکن جب قرآن کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ علم کی اصل جڑ اب ہاتھ آگئی ہے کانٹے پرسٹلے ہیگل اور دنیا کے بڑے بڑے فلاسفر مجھے بچے نظر آنے لگے ۔ بیچاروں پر بڑا ترس آتا ہے کہ انسانوں کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بڑی بڑی کتابیں لکھیں، لیکن ایک مسئلہ بھی حل نہ کر سکے ۔ جسے اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ۔ گویا کہ یہ کتاب میرے لیے Master key ہے مسائل حیات کے جس قفل پر بھی لگاتا ہوں وہ تالا فوراً کھل جاتا ہے ۔
خالق یہ کہتا ہے کہ میں تمہارے جسم کے پور پور تک سے واقف ہوں ۔ مجھے یہ دیکھنا ہے کہ تم میں سے کون بہترعمل کرنے والا ہے جس نے اپنے رب کو پہچانا حقیقت میں اس نے ایک مضبوط سہارا تھام تھا ۔ پھر جس نے رب سے سرکشی کی وہ ناکام ہوا
مضمون نگار
عبدالکریم بڑگن
بنگلور
#88671 64963
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!