بیدر کا دکنی شاعر غواصی غواصی ؔنے اپنی پہلی مثنوی ”میناستونتی“ بید رمیں تخلیق کی

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک موبائل:۔ 9141815923

0
Post Ad

 

سلاطین بہمنیہ کا پایہ تخت محمد آباد بیدر شریف اُردو کے قدیم ادب کے حوالے سے کافی مشہور ومعروف ہے بلکہ ادب کا جو خزانہ بیدر میں تخلیق پاچکاتھا اس خزانے کو برآمد کرنے کی شدید ضرور ت اکیسویں صدی میں بھی محسوس کی جارہی ہے۔

ایک روایت کے مطابق بہمنی سلطنت کے ٹوٹ کر پانچ سلطنتوں عادل شاہی، قطب شاہی، برید شاہی،نظام شاہی اور عماد شاہی (11چھوٹی چھوٹی سلطنتوں کی روایت بھی موجودہے)(۱)میں تبدیل ہوتے وقت بیدر میں تخلیق پایاہوا ادبی کام افراتفری کے پیش نظر اور منظم طریقے سے یاغائب کردیاگیایابیدر سے دوسرے مقامات کو منتقل کردیاگیا۔

اسی طرح محمد آباد بیدر شریف کے دکنی شعراء جو بریدیوں کے مزاج یاحالات کے مطابق خود کو ڈھال نہ سکے وہ بیدر سے گولکنڈہ کی قطب شاہی سلطنت تک پہنچ گئے یا پھر بیجاپور کی عادل شاہی حکومت کے دربار میں مقام ومرتبہ پاگئے۔ دونوں درباروں میں موقع ملاتو خود کاپوراتعارف کروایا اور اگر موقع نہیں تھا، یا حالات سنگین تھے تو اپنے وطن مالوف اور اپنے کام کو خفیہ رکھناانھوں نے ضروری سمجھا۔

اردو زبان میں منظوم سوانح نگاری لکھنے کاشرف بیدر کے قدیم شاعر فیروزؔبیدری کو حاصل ہے۔ فیروزبیدری کے ”پیرت نامہ“ کواردو کی سب سے قدیم منظوم سوانح عمری ہونے کاشرف حاصل ہے۔ پیرت نامہ جو 121اشعار پر مشتمل ہے اس میں شاعر نے حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ اور خود اپنے مرشد حضرت شیخ محمد ابراہیم مخدوم جیو کے اوصاف بیان کئے ہیں (۲)

اس فیروزبیدری کو گولکنڈہ کا شاعر سمجھاگیا۔ اس غلط فہمی کی جو بھی وجہ رہی ہو، بعدازاں جس طرح اس کاتعلق بیدر سے ہونے کی بات سامنے آئی۔ وہ کچھ اس طرح ہے۔ ڈاکٹر قیوم صادق لکھتے ہیں ”فیروز کازمانہ بہمنی سلطنت کے زوال کا دورتھا۔ گولکنڈہ میں قطب شاہی دورکا آغاز ہوچکاتھا۔ چنانچہ فیروز نے بیدرکو چھوڑ کرگولکنڈہ ہی میں سکونت اختیارکرلی تھی۔ جو بعد میں اس غلط فہمی کاباعث بنی کہ فیرو ز بیدرکانہیں گولکنڈہ کا شاعر ہے۔ نصیرالدین ہاشمی (دکن میں اردو ص66)، ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ(دکنی ادب کی تاریخ 17) اور دیگر محققین نے فیروز کو بیدر کانامور شاعر تسلیم کیاہے۔ کلام کی سلاست دیکھئے ؎

تمہیں قطب اقطاب جگ پیر ہے

تمہیں غوث اعظم جہانگیر ہے

تمہیں چاند، باقی ولی تارے ہیں

تو سلطان، سردار بسیارے ہیں (۳)

مذکورہ مثال سامنے رکھ کر سوچاجاسکتاہے کہ ان حالات کے پیش نظر محققین کوپریشانی لاحق ہوگئی کہ فلاں شاعر کامفصل تذکرہ یا اس کی حقیقت سامنے کس طرح آئے۔ان ہی شعراء میں ایک نام غواصیؔ کابھی شامل ہے جس کاتعلق بیدر سے ہے اوریہ کامیاب تحقیق ماہر دکنیات پروفیسر محمد علی اثرؔ کی ہے جنہوں نے ”غواصیؔ۔ شخصیت او رفن“ کے عنوان سے اپناتحقیقی کام مکمل کیا اور1977؁ء میں شائع بھی فرمایا۔ اسی طرح 2009؁ء میں ”غواصیؔ کانایاب کلام“ عنوان سے غواصی ؔ کے کلام کو مدون کرکے شائع کیا۔ اب آتے ہیں غواصی ؔ سے متعلق پروفیسر اثر ؔ کی تحقیق کی طرف۔”غواصی ؔ کانام اور اس کے پیرطریقت، نئی تحقیق کی روشنی میں“ مقالے میں وہ لکھتے ہیں ”غواصی ؔ دکنی اردو کاایک عظیم المرتبت شاعر ہے….راقم الحرو ف کی تحقیق کے مطابق غواصیؔ کانام عبداللطیف اور ابو محمدکنیت ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ راقم نے ”دکنی شاعری“ میں مولوی احمد خاں درویش مرحوم کی عنایت سے غواصیؔ کا نودریافت ”بیعتہ المصافحہ“ بھی حاصل کرکے شائع کیا(۴) جس سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ اس کانام عبداللطیف ابومحمدکنیت اور بید روطن تھا“(۱۔۴)

اس طرح جدید تحقیق نے غواصی ؔ کو بیدر کا شاعر ثابت کیاہے ورنہ غواصیؔ کے معاملے میں سابقہ تحقیق کچھ یوں رہی۔فیروزؔ بیدر کاباکمال استاد شاعر تھا۔ جس کی شاعرانہ عظمت کے گولکنڈہ اور بیجاپور کے شہرہ آفاق شعراء جیسے ملّا وجہی، غواصیؔ اور ابن ِنشاطی قائل تھے(۵) یعنی غواصیؔ گولکنڈہ کاشاعر قرار دیاگیاتھا۔ایساکیوں ہوا، تحقیق کے لئے ایک موضوع ہوسکتاہے۔ بہرحال،پروفیسر اثر ؔ اپنے مضمون ”اردوادب کادکنی دور“ میں لکھتے ہیں ”بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد فیروز گولکنڈہ چلاآیاتھا۔گولکنڈہ آنے کے بعد فیروز کوشاعر اور استادسخن کی حیثیت سے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ گولکنڈہ کے شعراء وجہی ؔ، محمد قلی، اور ابن نشاطیؔ نے اپنے کلام میں جس انداز سے فیروز کا تذکرہ کیاہے اس سے پتہ چلتاہے کہ ان شاعروں نے فیروز کے آگے زانوئے ادب تہہ کیاہے(۶) پروفیسر اثر نے غواصیؔ کانام ہٹاکر فیروز کی شاعری کوپسندکرنے اور اس کو استادسخن ماننے والوں میں محمد قلی کو شامل کردیااور گولکنڈہ کو غواصیؔ کاوطن ثانی بتاتے ہوئے لکھاہے۔ ”بیعت المصافحہ“ کی درج ذیل سرخی کے الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گولکنڈہ غواصیؔ کا وطن ثانی تھا۔ ”الفیقر الی اللہ ابو محمد غواصیؔ الشہیّر ملّا غواصی البیدری ثم غولکندوی فی عہدخاقان سلطنت قطب شاہ مدفیوضہ“ پروفیسر محمد انصاراللہ نظر کایہ بیان درست معلوم ہوتاہے کہ غواصیؔ اپنے پیرومرشد حیدرولی اللہ کی طرح بیدر کاباشندہ تھا۔ اور بعد کو محمد قلی قطب شاہ کے دور میں قدردانی کی توقع میں گولکنڈہ چلا آیاہو (دکنی متن (حصہ اول)شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ۔ 1991۔ ص46)(۷)

پروفیسر محمد علی اثر ؔ نے ”اردو ادب کادکنی دور“ میں صاف طورپر لکھاہے کہ فیروز بیدر کامتوطن تھا۔جس کااقتباس ملاحظہ کیجئے ”قطب شاہی دور کے اولین شاعروں میں فیروزؔ،محمود اور ملاخیالیؔ کے نام ملتے ہیں۔ یہ تینوں شاعر ابرہیم قطب شاہ کے دورسے متعلق ہیں۔ فیروز دراصل بیدر کامتوطن تھاجو ابراہیم قطب شاہ کے عہدہ میں گولکنڈہ چلاآیا۔گولکنڈہ آنے سے پہلے وہ بیدر کے اساتذہ ئ سخن میں شمار ہوتاتھا۔ گولکنڈہ کے علمی اور ادبی حلقوں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔فیروز ؔ کی گولکنڈہ میں آمدوہی حیثیت رکھتی ہے جیسے کہ بعد کے زمانے میں ولیؔ کاسفر دہلی، جس طرح اٹھارویں صدی کے آغاز میں شمالی ہند میں ولیؔکے زیر اثر اردو شاعری کا آغاز ہوا بالکل اسی طرح گولکنڈہ کے شاعروں نے فیروؔ زکے آگے زانوئے ادب تہہ کیا۔ محمد قلی، وجہیؔ اور ابن نشاطی نے اپنے کلام میں فیروز کو استاد سخن کی حیثیت سے یاد کیاہے۔ فیروز کی ایک مختصر مثنوی ”پرت نامہ“ کے علاوہ چند غزلیں بھی منظر عام پر آئی ہیں (۸)

بات کومزید صاف کرنے کے لئے پروفیسر اثر کے ایک اورتحقیقی مضمون کولیتے ہیں جس کاعنوان بڑا دلچسپ ہے۔ پروفیسر اثر ”اردو مشاعروں کادکنی دور“ میں فیروز ؔ اور غواصی ؔ دونوں کوبیدر سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں ”گولکنڈہ کے ادبی ماحول اور یہاں کے شعروسخن کی محفلوں اور قدردانی سے متاثر ہوکر قطب الدین قادری فیروزؔ اور عبداللطیف غواصیؔ بیدر سے گولکنڈہ چلے آئے“ (۹)

”غواصی ؔ کارنگ تغزل“ میں پروفیسر اثر ؔ لکھتے ہیں ”سلطان عبداللہ قطب شاہ کا عہد حکومت (1625؁ء تا1672؁ء) غواصی کی شاعری کا زرین دور ہے۔ اس بادشاہ نے اسے اپنے دربار کاملک الشعراء مقرر کیا۔ ”فصاحت آثار“ کے لقب سے نوازااور 1635؁ء میں شاہی سفیر کی حیثیت سے بیجاپور روانہ کیا۔ جہاں اس کاشایان شاہ استقبال کیاگیا۔ غواصی ؔ حضرت میراں شاہ حیدر ولی اللہ کا مریدتھا۔ جن کی مدح میں اس نے متعد د اشعار لکھے ہیں۔ شاہ حیدرولی اللہ کامزار نلنگہ (ضلع بیدر) میں ہے۔اس کے پائین میں غواصیؔ کی قبر ہے (۰۱)

”قطب شاہی دور کے صوفی شعراء اور ادیب“ میں پروفیسر اثر رقمطراز ہیں ”غواصیؔ نے غالباً چار سلاطین گولکنڈہ ابراہیم قطب شاہ، محمد قلی قطب شاہ، محمد قطب شاہ اور عبداللہ قطب شاہ کا زمانہ دیکھا۔ عبداللہ قطب شاہ نے اس کو نہ صرف اپنے دربار کا ملک الشعراء مقرر کیا اور شاہی سفیر کی حیثیت سے بیجاپور روانہ کیاتھا بلکہ ”فصاحت آثار“ کے خطاب سے بھی نوازا“سیف الملوک و بدیع الجمال، طوطی نامہ، مثنوی طریقت کے علاوہ مثنوی ”میناستونتی“ غواصیؔ کی وہ مثنویاں ہیں جن پر آج بھی کہیں نہ کہیں لکھااور بولا جاتاہے۔ اب یہ علیحدہ بحث ہے کہ غواصیؔکی پہلی مثنوی کانام کیاہے۔اس تعلق سے پروفیسر محمد علی اثر ؔ کتاب ”اردو کے ابتدائی معرکے“ کاحوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں ”میناستونتی کو غواصیؔ کی پہلی مثنوی ثابت کرنے کے لئے ڈاکٹر محمدیعقوب عامرکایہ بیان کافی اہمیت کا حامل ہے کہ ”اصل بات یہ ہیکہ سعادت علی رضوی، محمد بن عمر، اور نصیرالدین ہاشمی یہ سمجھتے رہے کہ”سیف الملوک وبدیع الجمال“ غواصیؔ کی پہلی تصنیف ہے۔ اس وقت تک غواصی ؔ کی پہلی کتاب مثنوی ”میناست ونتی“ دریافت نہیں ہوئی تھی (ارد وکے ابتدائی معرکے۔ص69) (۱۱)یہ بات بھی دلچسپی سے بھرپور ہے کہ غواصی ؔ کے پانچ تخلص کی نشاندہی کی گئی ہے(۱) غواص (غیر مشدد)(۲)غوّاص(مشدد)(۳)غواصی (غیر مشدد)(۴)غوّاصی (مشدد) اور(۵) غوّاصیا(۲۱) ”کلیات غواصیؔ“نے غواصی ؔ کو ایک ممتاز غزل گوکی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کیاہے۔جس کے بارے میں پروفیسر محمد علی اثر ؔ نے لکھاہے ”غواصی ؔ دبستان دکن کاسب سے بڑا شاعر ہے۔ غزل کے میدان میں قطب شاہی عہد کا کوئی شاعر اس کامقابلہ کرسکتاہے اور نہ عادل شاہی دور کاکوئی شاعر اس کے مرتبے کو پہنچ سکتاہے۔ اس کی غزلوں میں بھرتی کے شعر یا اشعار

کی تعداد بہت کم ہے جن میں گہرا تاثر نہیں پایاجاتا“(۳۱)

پروفیسر اثر ؔ کے بموجب ”غواصیؔ دکنی غزل کے ایک نئے اسکول کا بانی ہے جس کے بعد کے بلندپایہ شاعروں خصوصاً ولیؔ نے پیروی کی ہے۔ ذیل کے اشعار ملاحظہ کیجئے۔ جن میں غواصی ؔ کالہجہ اور اس کی منفرد آواز بہ آسانی پہچانی جاسکتی ہے ؎

اے دل آرام میں جدھر جاوں

دل کوتیریچ پاس دھر جاوں

یادکرتاہوں تج تو لاک انجھو

پڑتے ہیں منج نین تھے جھڑ جھڑ کر (۴۱)

چھوٹی بحروں میں غواصی ؔ کے اشعار میرتقی میرؔ کی یاد تازہ کردیتے ہیں ؎

ّدل کی دیوانگی نہیں جاتی

پھونکتا ہوں جتا دعا یاں پڑ

اے سجن تج کوں یاد کرپل پل

رووں اپس میں اپیچ میں ڈھل ڈھل

یکایک آہ سن میرا سحرگاہ

اُچائے بلبلاں سب شوربن میں (۵۱)

غواصیؔ نے بھی اپنے کلام میں مقامی ماحول سے وفاداری کا ثبوت دیاہے۔ چنانچہ اس کی غزلوں میں ہندوستانیت کی گہری چھاپ نظر آتی ہے….اردو کے غزل گو شاعروں کی طرح اس نے ہندوستان میں رہ کر شیرازواصفہان کے راگ نہیں الاپے…غواصی کی غزل میں ہندوستانی اقدار اور مقامی روایات کا احترام ملحوظ رکھاگیاہے۔ چنانچہ اس کے بیشتر اشعار میں حسن وعشق کے وہی مضامین اپنائے گئے ہیں جو ہندوستانی ذوق کے مطابق ہوں۔

دل میں اک بات ہے کسے نہ کہوں

کہ پھٹے گی وو بات یاں واں پڑ

حال یکساں نہیں کہ جیوں جمنا

گہہ بہوں پور گہہ اتر جاوں

رنگ بھریا منج گھر میں آج آیابسنت

غیب تھے تازہ طرب لیایا بسنت

درس تیرا سو دین کا دیوا

لٹ تری کفر کی ہے دیوالی

لال دوگال رنگ بھرے تیرے

عین جیوں نارنگیاں ہیں بنگالی

واقعہ یہ ہے کہ غزل گوئی کے میدان میں غواصیؔ دبستان دکن کاسب سے بڑا شاعر ہے(۶۱)

غواصی کی نودریافت غزلوں سے چند ایک معنی خیز، اورمعنی آفریں اشعار پیش خدمت ہیں ؎

اے یار اگر توں یار ہے تو سن نصیحت یار کا اغیارسوں یاری نہ لا، سنگ دور کر اغیار کا

اس گردش گردوں کی سرگردانگی تھے ہاتھ دھو

سُک دُک کو دے کے جان لے سُد چھوڑ دے سنسار کا

تُج لطف کے چشمے کے مٹّھے پانی کی

لاگی ہے بڑی آج منجے پیا س شہا

طلب پیالے پہ دھر، پیتے ہیں پیالا اس سبب شاہاں

جو رازاں عین باطن کے کتا ہے کھول کر پیالا

اگرچہ شاعراں بولے ہیں پیالے خوب خوب امّا

غواصیؔ کاپیالا سب کے پیالاں میں امرپیالا

اے سکیاں بانہہ پیا کا ہے سچا نوسرہار

آج وو ہار مرے گل منے بھاویں تو بھلا

منج میں لئی چھند، پیاکوں ہے رجھانے کے ولے

چھند پر ریج مرے ذوق میں آویں تو بھلا

درباری شعراء کے بارے میں کہاجاتاہے کہ انھیں تملق سے فرصت نہیں ملتی۔ خوشامدی ان کے رگ رگ میں بسی رہتی ہے۔ وہ صرف بادشاہ وقت کی حمد وثنا ہی کرنا جانتے ہیں اور سچ بولنے سے پرہیز اور گریز ان کی ذات کاحصہ ہوتاہے لیکن غواصی ؔ کامعاملہ ایسا نہیں تھا۔

پروفیسر محمد علی اثرؔ کے بقول ”ملک الشعراء غواصی ؔکو دربار عبداللہ قطب شاہ میں ایک بااعتمادمشیر کی حیثیت حاصل ہوگئی تھی۔ اپنے کلام میں جگہ جگہ اس نے حکومت کی بدانتظامی، رشوت خوری اور نظم ونسق کی خرابی پر سخت تنقید کی تھی۔ اور بادشاہ وقت کو اس سلسلہ میں مفید مشورے بھی دیے تھے۔ غواصی کہتاہے ؎

ہرکام میں کر حرکتاں بے شک وولیتے رشوتاں

ہیں یو بڑے بے دولتاں، جم راج کراے راج توں

پکڑے نہ تیوں کوئی لانچ کوں، کر قتل یاں دس پانچ کوں

سلگا غصے کی آنچ کوں، جم راج کراے راج توں (۷۱)

آخر میں یہی کہاجاسکتاہے کہ غواصی ؔ کاوطن بعد تحقیق محمد آباد بیدر شریف معلوم ہوجانے کی مسرت اور شادمانی میں قدیم دکنی ادب کے اس سرمائے کو پوری دنیا کے سامنے فخر کے ساتھ پیش کرنے کے لئے اہلیان بیدر کو آگے آناچاہیے ؎

جن بتوں کی آرزو اک جرم ہے

اُن بتوں کا کیا خدا ہوگا نہیں؟

حوالہ جات

(۱)عبدالصمد بھارتی۔ بیدر آج تک۔ اشاعت 2009؁ء ناشر:کرناٹک اردو اکادمی بنگلور۔ص82

(۲)ڈاکٹر قیوم صادق۔ نذرِ بیدر۔، اشاعت:6جون 1993؁ء ، ناشر: کرناٹک ادبی سرکل، راجاپور روڈ گلبرگہ۔ص71

(۳)ایضاً۔ ص72

(۴)پروفیسر محمد علی اثر ؔ،مرتبہ:ڈاکٹر راحت سلطانہ، معجم دکنیات، جلددوم،اشاعت:2020؁ء، الاانصار پبلی کیشنز حیدرآباد۔ص45-44

(۱۔۴) ایضاً۔ ص 86-84

(۵)ڈاکٹر قیوم صادق۔ نذرِ بیدر۔، اشاعت:6جون 1993؁ء ، ناشر کرناٹک ادبی سرکل، راجاپور روڈ گلبرگہ۔ص70-71

(۶)پروفیسر محمد علی اثر ؔ،مرتبہ:ڈاکٹر راحت سلطانہ، معجم دکنیات، جلددوم،اشاعت:2020؁ء، الاانصار پبلی کیشنز حیدرآباد۔ ص۔169-170

(۷)ایضاً۔ص 87

(۸)ایضاً۔ ص177-178

(۹)ایضاً۔ص342

(۰۱)پروفیسر محمد علی اثر ؔ،مرتبہ:ڈاکٹر راحت سلطانہ، معجم دکنیات، جلداول،اشاعت:2020؁ء، الاانصار پبلی کیشنز حیدرآباد۔ص506۔505

(۱۱)پروفیسر محمد علی اثر ؔ،مرتبہ:ڈاکٹر راحت سلطانہ، معجم دکنیات، جلددوم،اشاعت:2020؁ء، الاانصار پبلی کیشنز حیدرآباد۔ ص 88

(۲۱) ایضاً۔ ص 89.

(۳۱)ایضاً۔ص91

(۴۱)ایضاً۔ص92

(۵۱)ایضاً۔ص 93

(۶۱)ایضاً۔ص94-95

(۷۱)ایضاً۔ص106-105

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!