سال 2022؁ء کے 151ویں یوم یعنی منگل کے افسانچے

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:9141815923

0
Post Ad

۱۔ قدآورشخص

کبھی اس نے اپنی بے عزتی کوبے عزتی تصو رکرنے کی حماقت نہیں کی. قیادت کرنے کابھوت اس پرسوارتھا۔ اور وہ بھوت اس سے ہرجگہ نمائندگی کرواتا۔اور وہ اپنی صحت کی پروا کئے بغیر نمائندگی والے مختلف کام بڑی خوشی سے انجام دیتا۔ قیادتی بھوت تھاکہ اس کو نئے نئے راستے سجھاتا۔ شرم، حیا،سوچ، سنجیدگی، متانت سے اس کادور دور تک کا بھی تعلق نہیں تھا۔

جب وہ کارپوریشن انتخابات میں ہارا تو اس نے اس کو بے عزتی تصور نہیں کی۔ کہاکہ میں نے تین دفعہ ہارنے کے بعد پہلی دفعہ جیت حاصل کی تھی۔ اس طرح دیکھاجائے تو مجھے مزید دو دفعہ ہارنا ہوگا، تب کہیں جاکر حساب برابر ہوسکتاہے۔ اس کوپارٹی سے نکالاگیاتو اس کی دلیل تھی، کون لوگ ہیں جو پارٹی سے نہیں نکالے گئے۔ پارٹی سے نکالے جانے اور جیل جانے کے بعد ہی کوئی شخص لیڈر بنتاہے۔

اس کی تائید ماسوائے قسمت تمام مذہبی اور نیم سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ وہ آج مذہبی افراد اور نیم سیاسی جماعتوں کامشترکہ قائد ضرور ہے لیکن یہ سب مل کر بھی اس کو کوئی عوامی عہدہ نہیں دِلاسکتے۔ اس کاقدروزبروز گھٹتا جارہاہے لیکن وہ مذکورہ افراد کاسب سے قدآور شخص ہے۔

 

۲۔ رہنمائی ہے کیاہے؟

ایک لکھنا چاہتاہوں، دوسرا لکھادیتے ہو، دوسرا لکھنے کی بابت سوچتاہوں، تیسرے کام کی رہنمائی کرتے ہو۔ چوتھے کی طرف جانے نہیں دیتے۔ پانچویں کو میرے ذہن میں اچھی طرح بٹھادیتے ہو۔ چھٹا اور ساتواں دھرے کا دھرا رہ جاتاہے۔ آٹھواں در کھول دیتے ہو۔ نویں کی پہل کرتاہوں لیکن دسواں دماغ میں چلاآتاہے۔ ہر بار یہی حال ہے۔

میراسوال ہے کہ یہ سب کیاہے؟کیا یہ آپ کی رہنمائی ہے؟کیا یہی سچائی ہے؟

میں جواب سے محروم نہیں ہوالیکن کہانی یہیں چھوڑنی ہے تاکہ ذہین قارئین جواب دے کر خود اپنے آپ کو مطمئن کرسکیں کہ میرے ساتھ کیاہورہاہے اور یہ سارے کام کون کررہاہے؟

 

۳۔المنافقون

وہ لوگ ذہین تھے۔ انہیں اپنامقصد ِ زندگی اچھی طرح یادتھا۔ اس قدر ذہین لوگ تھے کہ کہتے تھے کہ انھوں نے ”الست بربکم“ کاجواب قالو بلی ٰ سے دیاتھا۔ان کی باتیں بڑی پیاری اور عمدہ ہوتی تھیں۔ سننے والاسنتارہ جاتا لیکن یہ باتیں عمل کے میدان سے خالی تھیں۔

ہوا جدھر ہوتی وہ اس کے لئے دلائل اٹھالاتے اور ناسخ ومنسوخ کاکھیل ان کے لئے عام بات تھی۔

عوام بھی بہت زیادہ علم کی حامی نہیں تھی۔ چھوٹی چھوٹی یاپھر پیچیدہ باتیں عوام کی سمجھ سے باہر تھیں۔ زندگی کا انداز جمہوری تھا۔ اسلئے وہ لوگ شان سے جئے جارہے تھے۔ کبھی پکڑ بھی لئے جاتے تو فوراً کوئی حامی کہہ دیتاکہ ہم بھی تو خاطی ہیں، روزہزاروں غلطیاں کرتے ہیں۔ ہمارے ذہین لوگوں نے خطاکی ہے تو اس میں فوراً سزاکی بات کرنا کہاں تک درست ہے؟ اور سزا بھی کیا ہم تم دے سکتے ہیں؟ نہیں نا؟اس لئے چھوڑو جانے دواور انہیں چھوڑ دیاجاتا۔

عوام ان کی بہت بڑی حامی تھی۔ او روہ عوام کے حقیقی رہنماتھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!