“اللہ اس پر رحم کرے جو مجھے میرے عیوب کا تحفہ دے”

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

0
Post Ad
ایک بستی میں ایک دبنگ خان صاحب رہتے تھے. غصہ ہمیشہ ان کی ناک پر رہتا تھا. بات بات پر گالی بکتے تھے، بلکہ کوئی جملہ گالی سے خالی نہ رہتا تھا. بستی کا ہر شخص ان کی اس عادتِ بد سے پریشان تھا، لیکن ان سے کچھ کہنے کی ہمّت نہ پاتا تھا. مسجد کے مؤذن نے ان کی خیرخواہی میں سوچا کہ انہیں اس جانب توجہ دلائی جائے. اس نے دبے الفاظ میں نہایت عاجزی سے عرض کیا : “خان صاحب ! بستی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ گالی بہت دیتے ہیں، یہ اچھی عادت نہیں ہے.” اتنا سننا تھا کہ خان صاحب کا پارہ چڑھ گیا. پہلے انھوں نے ایک ساتھ کئی بھدّی گالیاں دیں ، پھر کہا : “کون کہتا ہے؟ ذرا بتائیے، میں اس کی خبر لوں.”
ٹھیک یہی معاملہ میرے ساتھ پیش آیا ہے. میں نے نوجوانوں کی ‘جذباتیت’ پر ایک مختصر مضمون کیا لکھا کہ بھائی لوگ بستی کے خان صاحب کے انداز میں میری خبر لینے لگے. دو روز سے اس کا سلسلہ جاری ہے. کیا کیا باتیں کہی گئی ہیں ان کے چند نمونے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :
میں نے ‘جذباتیت’ کا لفظ استعمال کیا تھا. جذبات میں غلو اور ان کے بے موقع اظہار کو جذباتیت کہا جاتا ہے. جذبات اچھے بھی ہوسکتے ہیں ، برے بھی، لیکن جذباتیت کا استعمال ہمیشہ منفی معنیٰ میں ہوتا ہے _ بعض لوگوں نے اس کے جواب میں جذبات کے فضائل بیان کرنے شروع کردیے۔ ایک صاحب نے جذبات کو ایمانی غیرت کا متبادل قرار دے کر اس کے حق میں قرآن و حدیث سے دلائل اور عہدِ نبوی اور عہدِ صحابہ کے غیرتِ ایمانی کے واقعات پیش کردیے۔ حالاں کہ میں نے نہ جذبات کا انکار کیا تھا نہ انہیں نامطلوب قرار دیا تھا، بلکہ بے موقع و محل غلط طریقے سے جذبات کے اظہار کو نامناسب کہا تھا۔ سیرتِ نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ غلط جذبات کا ہی نہیں، اچھے جذبات کا بھی بے موقع اظہار ناپسندیدہ ہے۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر بعض نوجوان صحابہ نے بے موقع اللہ اکبر کے نعرے لگانے شروع کردیے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے  ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا : ” لوگو ! نعرے نہ لگاؤ۔ تم جس کے نعرے لگا رہے ہو وہ نہ بہرہ ہے نہ غائب۔ وہ تمھاری سننے والا ہے اور تم سے قریب ہے۔” (بخاری :2992 ، مسلم : 2704) اللہ اکبر کے نعرے لگانا غلط عمل نہیں ہے۔ یہ پاکیزہ اور مقدّس نعرے تو دشمنانِ اسلام پر لرزہ طاری کردیتے ہیں، لیکن ان کا بھی بے موقع اظہار اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا اور اس پر اپنے اصحاب کو تنبیہ فرمائی۔
بعض لوگوں نے شکایت کی کہ صرف نوجوانوں کو کیوں مطعون کیا گیا؟ ملت فروش بوڑھی قیادتوں کی بزدلی، بے حسی، بے بصیرتی اور بے غیرتی پر کیوں کچھ نہیں لکھا گیا؟ ظاہر ہے، ایک مختصر مضمون میں عنوان کی مناسبت سے ہی باتیں عرض کی جاسکتی ہیں۔ میرے پیش نظر نوجوانوں کے تمام احوال و مسائل کا احاطہ کرنا تھا نہ ہندوستان میں مسلم قیادت کا جائزہ لینا اور احتساب کرنا۔ کوئی شخص کسی ایک موضوع پر لکھے تو اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ تم نے اس میں فلاں فلاں باتیں کیوں نہیں لکھیں، یا فلاں فلاں موضوعات کو کیوں نہیں شامل کیا ، بے جا ہے۔ جو موضوعات ایک قلم کار سے چھوٹ جائیں، خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ دوسرے اصحابِ بصیرت ان پر قلم اٹھائیں۔ اسی طرح ایک دوسرے کی کمیوں کی تلافی ہوسکتی ہے۔
کچھ لوگوں کو جماعت اسلامی ہند سے پُرخاش معلوم ہوتی ہے اور چوں کہ میرا تعلق جماعت سے ہے اس لیے انھوں نے اس مضمون کی آڑ میں جماعت پر تیر اندازی کی۔ ان سے عرض ہے کہ جماعت کے خلاف اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے میرے مضمون کو واسطہ بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ یوں بھی جماعت کے خلاف لکھتے رہتے ہیں، آئندہ بھی جب چاہیں لکھ سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی  فرشتوں کی جماعت ہے نہ اس کے وابستگان اس کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ان سے بہت سی غلطیاں ہوئی ہیں اور آئندہ بھی ہوسکتی ہیں، لیکن الحمد للہ وہ اپنا احتساب کرتے رہتے ہیں اور سابقہ غلطیوں سے آئندہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض ارکان یا کارکنان کی کوئی غلطی یا کوتاہی جب کبھی میری نوٹس میں لائی جاتی ہے تو میں انہیں متنبہ کرتا ہوں اور صحیح شرعی حکم بیان کردیتا ہوں ، لیکن سوشل میڈیا پر انہیں زیرِ بحث نہیں لاتا۔
بعض لوگوں نے مضمون پر توجہ مرکوز رکھنے کے بجائے میری پروفائل کھنگال ڈالی اور یہ تبصرہ کیا کہ میں بس فروعی ، جزئی اور کم اہمیت کے موضوعات، مثلاً آسان نکاح ، تعلیم ، حسنِ معاشرت یا وفیات وغیرہ پر ہی لکھتا ہوں۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اصل مسئلہ : لبرل سیکولر جمہوری طرزِ سیاست و حکومت پر کیوں نہیں لکھتا؟ ان کا کہنا ہے کہ فروعی موضوعات پر لکھنا وقت کا ضیاع ہے. یہ محض symptoms کا علاج ہے، بیماری کی جڑ کا علاج نہیں۔ یہ مطالبہ بھی عجیب ہے۔ ہر شخص ہر موضوع پر نہیں لکھ سکتا۔  وہ اپنی دل چسپی کے موضوعات پر ہی بہتر طریقے سے لکھ سکتا ہے۔ اس وقت مزید تعجب ہوا جب معلوم ہوا کہ یہ مشورہ دینے والے سعودی عرب میں بسلسلۂ ملازمت مقیم ہیں. کیا انھوں نے وہاں کے نظامِ سیاست پر کبھی ایک جملہ، بلکہ ایک لفظ کہا ہے؟ غالب گمان ہے کہ نہیں کہا ہے، ورنہ اب تک واپس آچکے ہوتے۔
بہت سے لوگوں کی مہربانیاں اس شکل میں ظاہر ہوئیں کہ انھوں نے میری ذات کو نشانہ بنانا ضروری سمجھا اور ایسی ایسی باتیں لکھیں جنھیں دائرۂ ایمان سے خارج کسی شخص کی طرف ہی منسوب کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً کہا کہ میں منافق ہوگیا ہوں، باطل کے علم برداروں سے مادی منفعت حاصل کرنا چاہتا ہوں، اسلام دشمنوں سے میری ساز باز ہوگئی ہے، ناموسِ رسول پر حملہ کرنے والوں کا دفاع کررہا ہوں، شاتمانِ رسول کو بچا رہا ہوں، عیّار اور مکّار ہوں، بہروپیا ہوں، مصلحت پسندانہ نظریات رکھتا ہوں، میری دینی حِس ختم اور دل مُردہ ہوگیا ہے، میں ایمان کے منافی کام کررہا ہوں، مجھے اپنے ایمان کی فکر کرنی چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ میں اپنے ان تمام احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور ان کے حق میں دعائے خیر کرتا ہوں۔ حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : “رَحِمَ اللّہ اِمرَأً أهدَى إليِ عُيَوبِي” (اللہ اس شخص پر رحم کرے جو مجھے میرے عیوب کا تحفہ دے.) ان تبصروں کی روشنی میں ان شاء اللہ میں اپنے اعمال کا جائزہ لوں گا اور اہلِ ایمان کی صف میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے تجدیدِ ایمان کروں گا۔ اللہ تعالیٰ  اس کی توفیق ارزاں فرمائے
، آمین ، یا رب العالمین.
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!