خدمت خلق سےدعوت دین

مہدی حسن عینی خادم تنظیم ابنائے مدارس دیوبند

0
Post Ad

رات کے 3:30 بج رہے تھے،شدید تکان کے بعد سحری کرکے کچھ دیر آرام کا ارادہ تھا،اچانک ہیلپ لائن پر ایک فون آیا،”سر میرے بھائی کو بچالیجئے،سر میں کچھ بھی دے سکتا ہوں،میرے بھائی کو ایک وینٹی لینٹر بیڈ دلادیجئے” یہ کہتے ہوئے وہ شخص زار و قطار رونے لگا،میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے پوچھا کہ آپ کون ہیں،کہاں سے ہیں؟سامنے سے جواب ملا سر نام نا پوچھئے بس یہ سمجھ لیجئے آپ کا ہی بھائی ہوں،دہلی سے ہوں،پلیز کچھ کرئیے میرے بھائی کا 60٪لنگس ختم ہوچکا ہے.میں نے معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے فورا دہلی کے سبھی اسپتالوں کو فون گھمانا شروع کیا،
کب سحری کا وقت ختم ہونے لگا،پتہ ہی نہیں چلا، والدہ کے یاد دلانے پر جلدی جلدی دودھ پیا اور اپنے کام میں لگ گیا،5 گھنٹے مستقل کوشش کرتا رہا لیکن دہلی سے فریدآباد تک کسی اسپتال میں کوئی بیڈ نا مل سکا.
10 بجے صبح میں نے ان صاحب سے کہا کہ اگر آپ دہلی سے سہارنپور آسکیں تو شیخ الہند میڈیکل کالج میں ایڈمٹ کرانے کی ذمہ داری میری ہے،
بہر کیف وہ شام کے 6 بجے شیخ الہند میڈیکل کالج پہونچ گئے،افطار کے بعد میں نے انہیں مقامی عملے کی مدد سے ایڈمٹ کرادیا اور رات 9 بجے مریض کو وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا،میڈیکل کالج میں ان علاج شروع ہوگیا،کووڈ مریض ہونے کی وجہ سے کوئی تیماردار اندر نہیں جاسکتا تھا،میں نے اسپتال میں موجود دو تین مسلم اسٹاف سے کہہ دیا تھا کہ ان کا خیال رکھا جائے،الغرض 20 دن تک اس مریض کا علاج چلا،اور 20 مئی کو اس مریض کو اسپتال نے ڈسچارج کردیا.اس بیچ میں روز ایک مرتبہ فون ضرور کرتا،
ان 20 دنوں میں میں نے کبھی بھی ان صاحب سے ان کا نام نہیں پوچھا اور نا کوئی دوسرا سوال کیا ہمیشہ ان سے مریض کی کیفیت اور ضرورت کے بارے میں بات ہوتی تھی،جبکہ مجھے پہلے دن ہی پتہ چل چکا تھا کہ وہ غیر مسلم ہیں.یہاں تک کا تعلق تو خدمت خلق سے تھا جو ہماری ذمہ داری تھی.

اب آتے ہیں اصل مدعے پر:
20 مئی کو ان صاحب کا فون آتا ہے،سر میں ابھینو رائے بول رہا ہوں،میرا بھائی اب بالکل ٹھیک ہوچکا ہے، سر ہم اب دہلی واپس جارہے ہیں،ہم ایک مرتبہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں،آپ ہمارے بھگوان ہیں،ایک بار موقع دے دیں،اس نے اس کے علاوہ دس منٹ تک تعریف کی، شکریہ ادا کیا اور ملاقات کے لئے منت سماجت کرنے لگا،
یہ پہلا موقع تھا جب ان صاحب نے اپنا نام بتایا،
میں نے کہا ابھینو بھائی میں ایک عام سا انسان ہوں آپ اس طرح سے مجھے بھگوان نا بنائیں،
آپ دہلی واپس ہوتے ہوئے دیوبند پہونچ کر مجھے فون کرلیجئے گا میں ملاقات کروں گا،دیوبند کا نام سنتے ہی اس کی آواز بند ہوگئی،کافی دیر کے بعد اس نے کہا سر آپ دیوبند سے ہیں،میں نے کہا جی ہاں،خیر اس نے ملاقات کے لئے حامی بھرلی،لیکن پورا دن گزرنے کے باوجود اس کا فون نہیں آیا،میں نے بھی کوئی فون نہیں کیا.
23 مئی کو اچانک ابھینو رائے کا فون آتا ہے،اور آداب کہتے ہی ابھینو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتا ہے،
میرے کافی حوصلہ دینے کے بعد ابھینو نے جو کہا وہ من و عن یہاں نقل کررہا ہوں :
سر میں اس دن ڈر اور شرمندگی کی کیفیت میں تھا، اس لیے دیوبند میں رکا نہیں،سر میں آپ کا ہی نہیں پوری مسلم کمیونٹی کا گنہگار ہوں،سر دہلی دنگا میرے سامنے ہوا،میرے سامنے مسلمانوں کی لاشیں تھیں، مکان جل رہے تھے،لیکن ہم خاموشی کے ساتھ اپنے گھروں میں پڑے تھے.ہم کئی لوگوں کو بچاسکتے تھے لیکن ہم نے مسلمان ہونے کی وجہ سے اپنے دروازے بند کرلئے.
سر لیکن آپ نے مجھ سے نام پوچھے بغیر 20دنوں تک ہماری مدد کی،اور بدلے میں ہم سے کچھ لیا بھی نہیں،
سر میں بہت شرمندہ ہوں،سر 3 دنوں سے میں سویا نہیں ہوں،سر مجھے معاف کردیں.
میں نے کہا ابھینو بھائی آپ پریشان نا ہوں آپ کی مدد کرنا ہمارا اسلامی فریضہ تھا،اگرہم آپ کی مدد نا کرتے تو ہم اپنا فرض ترک کرتے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے رب کے سامنے جواب دہ ہونا پڑتا.
آپ اب صرف اتنا کریں کہ مذہب اسلام کو پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں،اور انسانیت کا جو درس اسلام نے دیا ہے اس پر ریسرچ کریں،
ابھینو کہنے لگے سر وہ میں شروع کرچکا ہوں،میں خالی اوقات میں کئی اسلامک لٹریچر پڑھ رہا ہوں،
آپ صرف اتنا کریں کہ مجھے کچھ وقت دیں میں آپ سے اسلام کے بارے میں سمجھنا چاہتا ہوں،میں نے کہا ٹھیک ہے سر آنکھوں، آپ جب چاہیں فون کرلیا کریں،
ابھینو صاحب اس کے بعد 2 مرتبہ فون کرچکے ہیں اور گھنٹوں پر مشتمل ہماری گفتگو ہوئی ہے،بہت سارے عمومی اعتراضات ان کے ذہن میں ہیں،جو دراصل پروپیگنڈوں کا نتیجہ ہے.ان سے دعوتی تناظر میں گفتگو کا یہ سلسلہ جاری رہے گا.ان شاء اللہ

حرف اخیر یہ ہے کہ اس ملک میں ہندو مسلم ایکتا کے لیے ہم 70 سالوں سے بہت کوشش کرچکے ہیں، لیکن کامیابی صفر ہے،کاش ہم نبوی طریقہ کو اپناتے ہوئے قومی یکجہتی اور ہندو مسلم ایکتا کے نعروں کے بجائے “اسلام سب کے لیے”جیسی تحریک کو اپنی عملی زندگی اور خلق خدا کے لیے نافعیت کے کردار سے برادران وطن کے سامنے پیش کریں تو رب کریم کی ذات سے یقین کامل ہے کہ موجودہ منظرنامہ بدلنے میں وقت تو لگے گا.لیکن ایک دن وہ آئے گا جب ایمان کی پرکیف ہوا وطن عزیز سے نفرت کا خاتمہ کرے گی اور اسلاموفوبیا کا زہر رفتہ رفتہ کافور ہوجائے گا.

ان شاء اللہ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!