افسانچہ فروخت شدہ جائیدادیں

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک موبائل:۔ 9141815923

0
Post Ad

شہر میں جگہ جگہ اوقافی جائیدادوں پر قبضے ہوچکے تھے اور ہوبھی رہے تھے۔ جن کوروکنے کی تدبیریں سمجھ میں نہیں آرہی تھیں۔ شہر کے چندبالغ اور باشعور نوجوانوں نے جمع ہوکر اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا بیڑا اٹھایا۔جس کے لئے سوشیل میڈیا کااستعمال بھی وہ کرنے لگے۔ گارڈن، درگاہ،دو عیدگاہ، تین مساجدکے بیرونی حصہ پر قبضہ کوروکنے کے لئے باضابطہ مہم شروع ہوئی۔ ہردوچاردن بعد ایک نیا قصہ سامنے آنے لگا۔ جس سے شہر کے عوام کی نیند یں حرام ہوگئیں اور پولیس بھی پریشان ہواٹھی۔

کئی ایک افراد پر الزامات لگے۔ مختلف پولیس اسٹیشنوں میں انھیں طلب کرکے وضاحتیں حاصل کی گئیں۔ اسی دوران میں شہر کے سب سے شریف عوامی نمائندے انیل کمار کے جی میں نہ جانے کیاسمائی کہ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے وہ آگے آئے۔ اور ان نوجوانوں سے بذات خود رابطہ کیا۔ اور کہاکہ میں آپ لوگوں کے بیانات سوشیل میڈیا پر پڑھ رہاہوں۔ اگر آپ لو گ چاہیں گے تو میں یہ مسئلہ ریاستی حکومت کے سامنے اسمبلی میں اٹھاؤں گا۔ آپ میری مدد کریں۔ نوجوان خوش ہوگئے کہ کوئی عوامی نمائندہ ہمارے مشن میں معاون بننے کے لئے تیار ہے۔ انیل کمار نے ان نوجوانوں کو اپنے دفتر پر مدعو کیا۔ ان نوجوانوں نے کہاکہ اس ہفتہ وہ اوقافی جائیدادوں کو بچانے میں بے انتہا مصروف ہیں، کچھ قانونی رکاوٹوں کو بھی عبورکرناہے ورنہ ہم گرفتار ہوسکتے ہیں۔ آئندہ ہفتہ ہم آپ سے ملاقات کریں گے، ہمارایہ وعدہ رہا۔ انیل کمار نے ان کاشکریہ اداکیا۔

آئندہ ہفتہ انھوں نے ان نوجوانوں کے لیڈر کو فون کیاتواس کا فون بندتھا۔ ان کاپی اے دن بھر اس فون پر فون کرتارہا۔ سارا دن فون بندہی رہا۔ دوسرے دن بھی وہی حالت تھی۔ دیگر دونوجوانوں کو فون کیاگیا لیکن ان کے بھی فون بندتھے۔ عوامی نمائندے انیل کمار کو حیرت تھی کہ اوقافی جائیداد یں بچانے والے نوجوانوں کے فون بندکیوں ہیں؟ مختلف پولیس اسٹیشن سے پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ کہیں انھیں پولیس نے دھر تونہیں لیا؟ لیکن وہ نوجوان کسی پولیس اسٹیشن میں بھی نہیں تھے۔

انیل کمار کے لئے یہ بڑا تلخ تجربہ تھا۔ آج وہ بوڑھے ہوچکے ہیں۔ ان کاکہناہے کہ اوقافی اداروں کو بچانا میرے لئے ناممکن کیوں رہا اس کی وجہ جو بھی ہو لیکن میں سمجھتاہوں کہ وقف اداروں کو مل بیٹھ کر کھانے اور ہضم کرنے کا ایک پرکشش پروگرام سماج میں موجودہے اور سب لوگ اس پروگرام پر عمل کرتے ہیں۔ کسی کواوقاف کی ایکٹروں میں زمین ملی ہوئی ہے۔ کوئی کچھ گنٹے زمین پرقابض ہے اور کچھ نوجوان دوچار پلاٹ لے کر وقف اراضی بچانے کے کام سے اپنادامن بچالیتے ہیں، فون اور رابطہ ختم کردیتے ہیں۔

ایک دفعہ انھوں نے اسی موضوع پرصحافیوں سے بات کرتے ہوئے سخت زہریلی ہنسی ہنس دی اور کہا ”جس قوم نے آنے والی نسل کے لئے زمین، جائیداد، وراثت وغیر ہ باقی رکھنے کانہ سوچا ہووہ قوم ٹکے میں بک سکتی ہے کیونکہ ایسی قوم کے ذہن کے کسی کونے میں بھی بچاکر رکھنے کاخیال نہیں ہوتا۔ جوقوم بچاکر رکھنا نہیں جانتی وہ دراصل فروخت کرنااورفروخت ہونا جانتی ہے، اسی لئے شہر کی بیشتر اوقافی جائیدادیں حقیقتاً فروخت ہوچکی ہیں، قبضہ وبضہ کی بات یکسرجھوٹی ہے“

تمام صحافی ایک دوسرے کامنہ تکنے لگے۔ صحافیوں کویقین نہیں تھاکہ تمام اوقافی جائیدادیں باضابطہ فروخت ہوچکی ہیں لیکن انیل کمار جیسے بزرگ سیاست دان کی باتوں کو وہ غلط بھی تصور نہیں کرسکتے تھے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!