بھارت کی سرکاری زبان ہندی کی مخالفت، کہاں تک درست؟

محمدیوسف رحیم بیدری، موبائل 9141815923

0
Post Ad

انسانی زندگی میں اختلافات:۔ انسانی زندگی میں اختلافات کاسچ ہمیشہ جاری وساری رہتاہے۔ کچھ لوگ اس کو انگیز کرلیتے ہیں اور کچھ ان اختلافات کو مخالفت کی شکل دے کر اپنے سیاسی اور دیگر مقاصد حاصل کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں۔ زبانوں کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتاہے۔ انسان زبان رکھنے والی مخلوق ہے۔انسانی منھ اورانسانی معاشرے میں زبان کا وجود بتاتاہے کہ زبانوں کی بدولت انسان رب کریم سے ہدایت حاصل کرتاہے اورمعاشرے کو راہ راست پرچلاتاہے۔لیکن جب اپنی پسندیدہ زبان کے مقابل اجنبی زبان سے اس کاپالا پڑتاہے تو پھر وہ اس سے اختلاف بھی کربیٹھتاہے۔ یہاں تک کہ سیاسی اور دیگر وجوہات کے پیش نظرمختلف زبانوں کی مخالفت بھی شروع کردیتاہے۔یہی کچھ ہمارے وسیع وعریض ملک بھارت میں ہرسال دیکھنے کو مل رہاہے۔ ہرسال 14/ستمبر کو ”ہندی یوم“ منایاجاتاہے۔ کیونکہ 14ستمبر 1949؁ء کو دستور سازاسمبلی نے ہندی کو سرکاری زبان کادرجہ دیاتھا۔اسی حوالے سے امسال بھی بڑے پیمانے پر ”ہندی یوم“ منایاگیا اور وزیراعظم نریندرمودی نے ٹوئٹ کرتے ہوئے کہاکہ عالمی سطح پر ہندی مسلسل اپنی شناخت بنارہی ہے۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے دہلی میں منعقدہ ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ہندی تمام ہندوستانی زبانوں کی سہیلی ہے۔ان کی Competitorنہیں ہے۔ ہندی زبان دیگر علاقائی زبانوں کو استحکام بخشتی ہے۔ امیت شاہ نے مزید کہاکہ ہر سال 14ستمبر کو تقریب منعقد کرنے کامقصد یہ جائزہ لینا ہے کہ ہندی کی ترقی ہواورساتھ ہی ساتھ متوازی طورپر تمام مقامی زبانیں بھی ترقی کرتی رہیں۔ اپوزیشن لیڈراور کانگریس پارٹی کے سابق صدر راہل گاندھی نے بھی ”ہندی یوم“ کی مبارک باد دیتے ہوئے پیغام دیاکہ ایک زبان کو ٹھیک طرح سے سمجھنے کے لئے دیگر ہندوستانی زبانوں کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے۔گویا امیت شاہ اور راہل گاندھی دیگر زبانوں کے ساتھ ہندی کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
کرناٹک میں ہندی کی مخالفت:۔ 14ستمبر کو ”ہندی یوم“ کے موقع پرکرناٹک میں کنڑی زبان کے تحفظ کی داعی تنظیم کرناٹک رکھشنا ویدیکے (نارائن گوڈااور شیورام گوڈا تنظیم)نے چک بالاپور، اڈپی، دھارواڑ، بیجاپور، ہونگوند، گلبرگہ، جیورگی چنچولی، سیڑم، بھالکی، وغیر میں احتجاج منظم کیا۔بنگلور شہر کے میسور بینک چوراہے پر ہندی زبان کا پوسٹر جلا کر اپنے غم وغصہ کا اظہار کیا۔اس کے علاوہ بھی بکثرت مقامات پر بینکوں کے سامنے احتجاج ہوا، ریلی نکالی گئی۔سوشیل میڈیا پر مخالفت کی گئی خصوصاً ہندی کے خلاف ٹوئیٹر کا استعمال کیاگیا۔ اراکین اسمبلی کو یادداشتیں پیش کی گئیں اور مطالبہ کیا گیاکہ بینکوں میں ہندی کے چلن کو ختم کریں اور کنڑی خدمات بحال کی جائیں۔ غیرہندی دانوں سے ہندی کی بدولت کی جارہی ناانصافی کوبند کریں۔ کہاجاتاہے کہ یہ ریاست گیر احتجاج بینکوں کی ہٹ دھرمی کے خلاف تھاکیونکہ ہندی نہ آنے کے سبب لاکھوں کنڑا بولنے والوں کو ملازمت سے محروم ہوناپڑتاہے۔
چھوٹے مقامات پر احتجاج اور تائید:۔ کرناٹک رکشنا ویدیکے نے بیدر ضلع کے بھالکی کی اسٹیٹ بینک آف انڈیاکے سامنے ہندی کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاج منظم کیا اور بینک کے مینجر کو یادداشت پیش کی۔ اسی تعلقہ کے کون میلکندا میں واقع مرارجی دیسائی رہائشی اسکول میں ”ہندی یوم“ منایاگیا اور ہندی ز بان سیکھنے کی ترغیب دی گئی۔بیدر ضلع کے کمال نگر تعلقہ میں واقع موضع مدھوڑ سرکاری ہائی اسکول میں بھی ”ہندی یوم“ مناتے ہوئے کہاگیاکہ بھارت کے 12ریاستوں کی مادری زبان ہندی ہے۔ 50یونیورسٹیز میں ہندی پڑھائی جاتی ہے اور اس کے سیٹلائٹ کیمپس موجودہیں۔ ملک میں مختلف زبانیں ہیں۔ ان تمام زبانوں پر ہمیں فخر کرنا چاہیے۔
انگریزی بڑی مچھلی:۔ زبانوں میں آج سب سے بڑی مچھلی انگریزی ہے۔ انگریزی کی بدولت دنیا بھر کی زبانوں کوخطرہ ہے۔ اسی لئے کنڑا زبان کے بزرگ ادیب آنجہانی دیشامس ہڈگی نے کئی سال پہلے کہاتھاکہ اپنی اپنی زبانوں کو بچانے کے لئے سب سے پہلے انگریزی کو گولی ماردینا چاہیے۔ ان کا یہ بیان پورا نہ سہی لیکن بہت کچھ سچائی اپنے اندر رکھتاہے۔ زبانوں کے سمندر میں آج انگریزی زبان سے قدآور مچھلی کوئی دوسری نہیں ہے جو چھوٹی چھوٹی لسانی مچھلیوں کے لئے لٹکتی ہوئی خطرناک تلوار ہے۔جس کاحوالہ دے دے کر زبانوں کو ختم کیا جارہاہے او رایک سبب انٹرنیٹ پر زبانوں کی عدم دستیابی بھی بتائی جارہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ایسی خطرناک زبان انگریزی کے خلاف کہیں کوئی آواز اٹھتی نہیں ہے اور ملک کی سرکاری زبان ہندی کے خلاف ا لبتہ آواز اٹھائی جاتی ہے۔ یہ تضاد بڑا دلچسپ اورمستقبل کے لئے عبرتناک ہے۔
عوام کامطالبہ:۔ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اپنے ہی ملک کی سرکاری زبان کی مخالفت اور اس کے پوسٹر جلانے کے باوجود کوئی شخص یا تنظیم جب دیش کا غدار نہیں کہلاسکتے توپھر وزیر اعظم یاصدر جمہوریہ، وزیراعلیٰ اودیگر کے خلاف کچھ کہنے سے ملک کے غدار کس طرح کہلائیں گے؟ ان دوپیمانوں کو عملی طورپر ختم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ ہم اس کے خاتمہ کے منتظر ہیں۔بہرحال ”ہندی یوم“ نے ہر سال کی طرح اس سال بھی بھارت میں زبانوں کے آپسی تعلقات کی بحث کو جنم دیاہے۔ دوچار دن میں دوسرے موضوعات اس بحث پر غالب آجائیں گے اور اس طرح دوسرے موضوعات پرآئندہ گفتگو چل پڑے گی۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!