ڈرامہ:فیس کم نہیں ہوگی

ڈرامہ نگار:محمدیوسف رحیم بیدری، بید ر۔ کرناٹک موبائل:9141815923

1
Post Ad

پہلامنظر: (کھیت کامنظر ہے، فصلوں کے لہلہانے کے کٹ آؤٹ لگے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگ ان کھیتوں میں کام کررہے ہیں۔ نوجوانوں لڑکوں کی تعداد زیادہ ہے)

ایک آفیسر: اے لڑکے!اِدھر آؤ۔(کام کرنے والا نوجوان قریب جاتاہے،اس کے ہاتھ میں درانتی ہے)

آفیسر: کھیت میں کیوں کام کررہے ہو؟ تمہیں تو کالج جانا چاہیے۔

نوجوان لڑکا: سر میں نہم جماعت کاطالب علم ہوں، میرے والد کوویڈکے سبب دنیا سے گذر گئے۔ گھر کابڑا بیٹاہوں۔ کمانے والا کوئی نہیں ہے۔ اس لئے کھیت میں کام کررہاہوں۔

آفیسر: ٹھیک ہے تم جاؤ، اور دوسرے لڑکے کوبھیج دو(دوسرا لڑکا آتاہے اورآفیسر کے سامنے ہاتھ جوڑکر)

دوسرالڑکا: پرنام بابو جی!

آفیسر (خوش ہوتے ہوئے):پرنام، خوش رہو

دوسرالڑکا: کیسے خوش رہیں بابوجی۔ گھر میں کھانے کے لئے روٹی نہیں ہے۔گھر سے باہر کمانے نکلے ہیں تو روزی نہیں ہے۔

آفیسر(بوکھلاکر):ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ یہ بتاؤ اسکول کیوں نہیں گئے؟

دوسرالڑکا: سر میں کالج میں پڑھتاہوں اسکول میں نہیں۔ کوویڈ اور لاک ڈاؤن نے سب کچھ تبا ہ کردیاہے۔کالج کی کلاسیس آن لائن ہورہی ہیں لیکن میرے پاس موبائل نہیں ہے۔جوموبائل ہے وہ 900روپئے والا چھوٹاموبائل ہے۔یہ موبائل آن لائن پڑھائی کے لئے کام نہیں آسکتا۔ (وہ جیب سے چھوٹا موبائل نکال کر دِکھاتاہے)

آفیسرکاساتھی: کوئی بات نہیں، ہم حکومت سے کہہ دیں گے کہ وہ تم جیسے نوجوانوں کو موبائل فراہم کرے۔

دوسرانوجوان: ساتھ میں وائی فائی کنکشن بھی دلایاجائے تو مہربانی ہوگی

(تیسرے نوجوان کو بلاکر سوالات پوچھنے کے بجائے وہ دونوں آفیسروہاں سے واپس ہوتے ہیں، پرندوں کے چہچہانے کی آواز بدستور کم ہوتی جارہی ہے، افسران کھیتوں سے دور ہورہے ہیں)

دوسرامنظر: (ایک عالیشان مکان ہے،اور وہاں ایک شخص بیٹھا ٹی وی دیکھ رہاہے۔ٹی وی پر جو چینل دیکھ رہاہے اس کا منظر یہ ہے کہ کسی بڑے شہر کا کوئی عظیم الشان اسکول ہے جس کے بند گیٹ کے سامنے اولیائے طلبہ احتجاج کرتے نظر آرہے ہیں، ٹی وی چینل کانمائندہ ان سے ان کے مسائل جاننے کے لئے انٹرویو لے رہاہے، اولیائے طلبہ انٹرویو دے رہے ہیں)

ایک مرد: سر کیابتائیں، میں اپنے دونوں بچوں کی مکمل فیس ادا کردیتاہوں، لیکن لاک ڈاؤن کے سبب پچھلے سال میری نوکری چلی گئی ہے۔تب سے کوئی رقم نہیں دی ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں کہاں سے رقم دے سکتاہوں۔

دوسرا مرد: میرابچہ اسی اسکول میں دہم جماعت میں پڑھتاہے۔ فیس نہ بھرنے سے میرے بچے کو اسکول والوں نے آن لائن پڑھائی کے لئے لنک بھیجنا بند کردیاہے۔ میں نے اسکول انتظامیہ سے کہاہے کہ میرے حالات جیسے ہی بہتر ہوجائیں گے، میں فیس بھردوں گالیکن وہ ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔انھیں فیس ابھی چاہیے۔

ایک خاتون: اسکول والوں نے ہماری بے عزتی کرنا شروع کردی ہے۔ کئی سال سے اس اسکول سے ہمارے بچوں کااور ہماراناطہ ہے۔ اب یہ ناطہ فیس نہ دینے سے ٹوٹنے والا ہے۔ پورادیش کورونا سے جوجھ رہاہے۔ لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار اور بے سہاراہوچکے ہیں، ایسے میں ہمارے اسکول والوں نے فیس طلب کرکے ہماراجینا مزید حرام کردیاہے لیکن ہم بھی یہ اسکول چھوڑ کر نہیں جائیں گے۔اور جہاں بھی جائیں گے وہاں بھی فیس طلب کی جائے گی۔

نوجوان لڑکی: سر،میں اسی اسکول کی طالبہ ہوں۔ میرا خواب IASکرنے کاہے۔ مجھے اگر آن لائن ایجوکیشن نہیں ملاتو میں اسی اسکول کے سامنے زہر پی کر خودکشی کرلوں گی۔میری خودکشی کا سبب اسکول انتظامیہ کارویہ ہوگا۔میں اپنے والدین کو میری فیس کے لئے رسوا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی۔

چینل رپورٹر (طالبہ سے): اسکول انتظامیہ سے ہٹ کر بھی مرکز ی اورریاستی حکومتوں سے کچھ کہناچاہوگی

دوسری طالبہ (مداخلت کرتے ہوئے):سر،ان حکومتوں نے تو ہمارے پورے معاشرے کو تباہ کردیاہے۔ آج تک میر ے خاندان میں کورونا کے سبب پانچ لوگ مرچکے ہیں۔ اب میری اور میرے بھائی بہنوں کی تعلیم کاسوال ہے جس کے لئے حکومتیں کچھ نہیں کررہی ہیں، منہ میں گھونگنیاں ڈال کر بیٹھی ہیں، اسی لئے تو یہ خانگی اسکول اپنی من مانی چلارہے ہیں۔ہمارے بزرگ کہہ رہے ہیں ایسی نکمی حکومتیں ہم نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔

چینل رپورٹر: (چینل کے سامعین سے خطاب کرتے ہوئے)پہلی بات تو یہ کہناہے کہ اگر خانگی اسکول اور کالج تعلیم دینے میں آپ پر ظلم کررہے ہیں تو اس کے بجائے طلبہ کو چاہیے کہ وہ سرکاری اسکول اور کالجس میں تعلیم حاصل کریں جہاں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ آپ نے دیکھا کہ طلبہ اور اولیائے طلبہ فیس کی بابت خانگی اسکولوں کے سخت قواعدکے سامنے بے بس ہیں۔ وہ احتجاج کررہے ہیں کہ ان سے لی جانے والی فیس میں کمی کی جائے اور انہیں کچھ مہینوں کی مہلت دی جائے لیکن اسکول انتظامیہ اس کے لئے تیار نہیں ہے۔ اس کاکہناہے کہ ہم بھی لاکھوں کروڑوں روپئے انویسٹ کرکے بیٹھے ہیں۔ ہمار ابھی خسارا ہورہاہے۔

(چینل دیکھنے والا شخص اچانک ہی اپنی نشست سے اٹھ کھڑا ہوتاہے اورتیز تیز بولنے لگتاہے)

چینل دیکھنے والا شخص:ہاں کیوں نہیں،ہمار ابھی تو خسارا ہورہاہے۔ میں نے تو10کروڑروپئے خرچ کرکے اپنااسکول کھڑا کیاہے۔پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں روزانہ بڑھ رہی ہیں۔ مہنگائی آسمان چھورہی ہے، ان حالات میں مجھے بھی اسکول فیس میں اضافہ کرناپڑے گا۔ا سلئے میں فیس کم نہیں کرسکتا۔ میں فیس کم نہیں کرسکتا۔میں فیس کم……

(آواز دھیمی ہوتی جارہی ہے، اسی رفتار سے اسٹیج کی روشنی بھی مدھم پڑرہی ہے)

پردہ گرتاہے

1 تبصرہ
  1. محمدیوسف رحیم بیدری کہتے ہیں

    جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!