کَل تھے دنیا کے راہبر ہم لوگ
ہو گئے کیا سے کیا مگر ہم لوگ
عَقل اب تک جواں نہ ہو پائی
ہے یہ دعویٰ، ہیں دِیدَہ وَر ہم لوگ!!
شَر ہی شَر ہے ہماری خَصلَت میں!
یُوں تو کہنے کو ہیں بَشَر ہم لوگ
بغض و نفرت اُگَا کے بیٹھے ہیں!
کس خوشی میں زمین پر ہم لوگ
ہائے افسوس ہو گئے کنگال
بیچ کر ایک اک ہُنَر ہم لوگ
کیا بنائیں گے آخرت اپنی
دِل کی دنیا اُجَاڑ کر ہم لوگ
قائدِ قوم! یہ بَتَا تو سَہِی
زیر ہیں یا کہ ہیں زَبَر ہم لوگ.
خود ستائی کے شوق میں ارشد
ہو گئے خود سے بے خَبَر ہم لوگ!!