ہو گیا میں خود سے خود،کب جُدا نہیں معلوم!
کون آ بَسَا مجھ میں،دوسرا نہیں معلوم!!
شعر گو ہُوں مدّت سے،شعر کیا نہیں معلوم!
کیا ردیف ہے اور کیا،قافیہ نہیں معلوم!!
صَدر و ضَرب کیا ہے، کیا ابتدا نہیں معلوم!
کیا عروض ہے صاحب! حَشو کیا نہیں معلوم!!
کر رَہَا ہے آئے دن، وہ بھی عشق کی تفسیر
عشق کی جسے اب تک ابتدا نہیں معلوم!!
مشورے میں برکت ہے، اور ہے یہ سُنّت بھی
اوج پر نہیں پھر کیوں، مشورہ نہیں معلوم!!
داد مجھ کو دیتے ہیں، میں بھی داد دیتا ہوں
کیا کروں یہ لے دے کر، واہ وا نہیں معلوم
دَم نہ مارو اے ارشدؔ،اہلِ ذوق کے آگے
تم کو اب بھی اردو کا، قاعدہ نہیں معلوم!