سال 2022؁ء کے 175ویں یوم جمعہ کے افسانچے

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک،موبائل:9141815923

0
Post Ad

۱۔ تعریف شدہ شہر
اس شہر کی بڑی تعریف ہورہی تھی۔زیدوبکر دونوں نے نئے خواب سجاکر اس شہر میں قدم رنجہ فرمایالیکن یہاں تو ہر طرف سفارشات اور شناسائی کی دھوم تھی۔ اسی کے بل بوتے پر لوگوں کو روزی روزگار ملتا۔ وہ دونوں کافی تگ ودو کرتے رہے۔ ہمت تو نہیں ہاری تھی، کسی غیبی مدد کی آس پر تھکے تھکائے ایک درخت کے نیچے کھڑے تھے کہ وہاں ایک سادھو چلاآیا۔ اس نے دونوں سے پوچھا”یہاں کیوں کھڑے ہو؟“ دونوں نے وجہ بتائی تو اس نے ہنس کر کہا”اس شہر میں کسی نہ کسی بہانے کھانا مل سکتاہے لیکن نوکری نہیں،نوکری کے لئے شناسائی ضروری ہے“
زید وبکر کے لئے یہ جملہ ناقابل برداشت تھا۔ سناہے کہ وہ دونوں وطن واپسی کے لئے رخت سفر باندھ چکے ہیں۔

۲۔ سامانِ زندگی
سب خوش تھے کہ انہیں کارڈ مل چکاہے۔ نئے خواب سجائے وہ کارڈ لے کر دفتر سے باہر نکلے تو باہر کھڑے فقیر نے پوچھا”اس کارڈ کو لے کر بہت خوش نظر آرہے ہو“ انھوں نے جواب دیا ”ہاں“ فقیر نے دوبارہ پوچھا”کیوں“ وہ بولے ”ہمیں اس کارڈ سے راشن ملے گا، زندگی سکون سے گزرے گی“
فقیر بے تحاشہ ہنستارہا۔ وہ لوگ ایک دوسرے کی صورت تک رہے تھے۔ انہیں محسوس ہواکہ فقیر اُن لوگوں کا مذاق اڑارہاہے۔ فقیر نے کہا”کارڈ سے تمہیں جینے کاسامان تو ملے گا لیکن عزت نہیں ملے گی“
ان کے چہرے فق تھے۔ایسالگتاتھاانہیں جینے کے سامان کے ساتھ ساتھ عزت بھی مطلوب ہے۔

۳۔ چہرہ ئ عبادت
”نماز پڑھاکرو، زندگی تمہیں اپنی آغوش کاسکون عطا کرے گی“مولانا نے اس کو نصیحت کی۔
وہ مجذوب ہنس پڑا اور بولا”میں سمجھتاتھاکہ نماز پڑھ کر رب کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے، ایک تم ہوکہ زندگی کا سکون ڈھونڈتے ہو؟، عبادت کے صلہ کو سستاکردیاتم نے…..ہاہاہا…..ہاہاہا“ مولانا کا چہرہ دیکھنے لائق تھا۔

۴۔بے خبری
انھیں ایک ایساکارڈ چاہیے تھاجس سے عزت مل سکے، عروج حاصل ہو،وہ لوگوں کی آنکھوں کاتارا بن سکیں۔
روزانہ خبر دینے والے اِن افراد نے بڑی کوششیں کیں، اپنی تنظیم بناکر کچھ کچے پکے کام کئے۔ دیگر معروف افراد کے ساتھ اٹھک بیٹھک کی۔ لوگوں کی رہنمائی کافریضہ بھی انجام دِیالیکن انہیں عزت نہیں مل سکی۔
آخرکار ان کی تنظیم نے انہیں ایک ایساکارڈآخردے ہی دِیا جو مختلف سرکاری محکموں میں چلتاتھاتاہم وہ عوامی طورپر شک ہی کی نگاہ سے بدستور دیکھے جاتے رہے۔ دنیا انہیں دیکھ کر خوف کھاتی اور ان کے قریب ٹہرنا پسند نہیں کرتی تھی۔ مگر اس کااحساس انہیں بالکل نہیں تھاکہ وہ معاشرے میں ناپسندکئے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ معاشرے کے مستندجرائم پیشہ اور ناپسندیدہ افراد بھی ان کے سائے سے بدکتے ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!