سال 2022؁ء کے 177ویں یوم اتوار کے افسانچے

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:9141815923

0
Post Ad

۱۔ چھوٹابھائی
میں نے پوچھا”دشمن…؟“ پھرخود ہی کہنے لگا”وہ تو مل ہی جاتے ہیں، ہر شہر شہرِ حاسدین اور ہر قصبہ قصبہئ حاسدین بناہواہے“ اس نے میری بات پر کسی ردعمل کااظہار نہیں کیا۔ صرف روتارہا۔ مجھے اس کے آنسو دیکھ کر دُکھ ہورہاتھا۔ ایک اچھا خاصاصحت منداور خوبصورت نوجوان رورہاتھا۔ میں نے اس کو سمجھاتے ہوئے کہا”شہر ت کی قیمت ہر کسی کواداکرنی پڑتی ہے۔ تم نے ضرورت مندفقیر تو سڑکوں پر دیکھے ہوں گے۔جو دوکانوں کے علاوہ سڑک پر ٹہرے ہوئے ہر شخص کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کچھ نہ کچھ رقم بہرحال حاصل کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی شہر ت کاخراج وصول کرنے والے کچھ لوگ تمہیں واٹس ایپ، فیس بک، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور دیگر سوشیل میڈیا سائٹس پر مل جائیں گے۔سچ کو غلط کہنا، کہیں نہ کہیں اپنی نحس انگلیوں کے ذریعہ ’انگلی‘ کردینا ان کامعمول ہوتاہے۔ یہ سوشیل میڈیا حاسدین ہیں، ان سے بچ کررہنایاپھر اپنی شہرت کو دیگر نام دے کر ان کی نظروں سے شہر ت کو بچائے رکھنا سمجھدارنوجوانوں پر فرض ہے، ورنہ کچھ نہ کچھ تکلیف ہرہفتہ، پندرہ دن میں ملتی رہے گی۔ بات پولیس اور
مقدمات تک بھی پہنچ سکتی ہے“
عجیب گھونچو نوجوان تھا۔ ابھی بھی سر نیچا کئے روئے جارہاتھا۔ اس پر میری بات کاکوئی اثر نہیں تھا۔ جی تو چاہ رہاتھاکہ اس کے گال پر ایک تھپڑرسید کردوں لیکن چونکہ میرا چھوٹابھائی بھی اسی کے مزاج کاحامل تھا اسلئے مجھے خاموش ہوناپڑا۔
……………………………
۲۔اڑنچھو کہانیاں
میں دو گھنٹے سے عدالت میں تھا۔ لوگوں کی حرکات وسکنات کو دیکھ کر کئی کہانیاں خود بخود ذہن میں جمع ہوتی جارہی تھیں۔ اورمیری بے چینی کاعالم نہ ہی پوچھیں تو بہتر ہے۔ میں جلد از جلد ان کہانیوں کو صفحہ قرطاس پر لے آنا چاہتاتھاتاکہ یہ کہانیاں محفوظ ہوجائیں لیکن کاغذ اورقلم میرے پاس نہیں تھا۔ بے چینی کا جو عالم تھا میرے چہرے سے بھی عیاں تھاکیونکہ کچھ لوگ میرے بے چین چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے گزررہے تھے۔
اتنے میں وکیل صاحب میرے پاس آئے او ر مجھ سے فیس جمع کرنے کے لئے کہا۔ پھرتو میرے ذہن میں جمع ہونے والی ساری کہانیاں بکھر کر رہ گئیں۔
آج جب کہ 10دن ہورہے ہیں، میں سوچ رہاہوں کہ وہ کون سی کہانیاں تھیں جن کے نقشے عدالت کے احاطہ میں میرے ذہن میں بنے تھے لیکن مجھے یادنہیں آرہاہے۔ذہن پوری طرح خالی ہوچکاہے۔
…………………………………..
۳۔ اوبا ہوا شخص
گندہ پانی پیتے پیتے میں اوب گیاہوں۔ بلدیہ میرے اعتراض کو سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لوگ بھی ہنس کرکرمیری بات ٹال دیتے ہیں یاپھر صاف پانی خرید کرپینے کے لئے کہتے ہیں۔ صاف پانی پینے کامجھے مشورہ دینے والے امیر لوگ ہیں، وہ صاف پانی خرید کر پیتے ہیں۔میرے گھر میں گندہ پانی ہی سربراہ ہوتاہے۔ وہی پانی پینا میری مجبوری ہے۔
جو شخص آلو،ٹماٹر،اور گوشت ہر دن گھر لانہیں سکتا۔صاف پانی خرید کر کہاں سے لائے گا؟گندہ پانی پینے کاعمل جاری ہے۔ جانے کب تک ایسا ہوتارہے گا۔ مجھے اس کا پتہ نہیں ہے۔
کیاآپ پانی خرید کر پیتے ہیں؟ اگر ایساکرتے ہیں تو پھر بلدیہ کا گندہ پانی پینے کے لئے کیا میں ہی رہ گیاہوں؟
……………………………………
۴۔ قانونی نکات
موکل کی آنکھوں میں کیس آگے تک لڑنے کاعزم دیکھ کر معزز وکیل کو مسرت ہوئی۔ گاہک ضدی ہوتو قانونی دوکان داری خوب چلتی ہے، معزز جج کے سامنے قانونی نکات بیان کرنے میں لطف بھی خوب آتاہے۔
مقدمہ کوچیلنج کرتے ہوئے معززوکیل نے اوپری عدالت میں عرضی داخل کردی ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!