کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفان سے کیا؟

0
Post Ad

 ازمحمد عبد اللہ جاوید
کرونا وبا کے ساتھ ہمارا یہ دوسرا سال ہے۔ اس دوران ہم نے اس کے کئی نشیب وفراز دیکھے۔شروعات میں اس کا بڑا خوفناک ماحول رہا۔نہ صرف اس وباء سے متاثرہ افراد بلکہ ان کے گھروں تک کی حد بندی کردی جاتی تھی تاکہ دوسرے لوگ اس متعدد مرض سے محفوظ رہ سکیں۔چونکہ اس وباء سے متعلق جرثومے کے اثرات کی مکمل جانکاری نہیں تھی‘ اسلئے اس کے متعدی ہونے اور انسانی زندگی پر پڑنے والے مہلک اثرات کے سلسلہ میں مختلف باتیں بیان کی جاتی رہیں۔اس بات پر بھی خاصی گفتگو ہوئی کہ آیا یہ وباء انسان کے اپنے ہاتھوں کی کارستانی ہے یااللہ تعالیٰ کے عذاب کی ایک شکل؟پھر طریقہ علاج کی جنتی شکلیں ہوسکتی تھیں‘ ان پر کوئی نہ کوئی اپنے طور سے تجویزیں دینے لگا۔اللہ اللہ کرکے ان حالات میں بہتری اس وقت محسوس ہوئی جب ویاکسین ایجاد ہوئی اور اس کے استعمال کے سلسلہ میں زیادہ ترمثبت باتیں عام ہونے لگیں۔
لیکن کرونا وباء کی دوسری لہرنے اس کے قہرکے ساتھ مختلف اندیشوں اور غلط فہمیوں کے ایک نئے باب کا آغاز کردیا۔اس میں سر فہرست ویاکسین کا استعمال ہے۔اسکے مضر اثرات سے متعلق کافی بے چینی پیدا ہوئی۔کوئی کہتا ہے کہ اس کے استعمال سے انسانی خلیئے متاثر ہوکر ڈی این اے کو ہی بدل دیتے ہیں۔کوئی کہتا کہ اس کے ذریعہ آبادی پر روک لگانا پیش نظر ہے۔ کسی کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعہ خواتین کے استقرار حمل میں دشواری پید ا ہوسکتی ہے۔کسی کا ماننا ہے چونکہ ماہرین نے بڑی جلد بازی میں یہ ویاکسین تیار کیا ہے اس لئے اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔پھر کوئی ویاکسین تیار کرنے والی کمپنیوں کے حوالے سے الگ الگ باتیں بیان کرتا ہے کہ کونسی موثر ہے اور کونسی نہیں۔
اتنا ہی نہیں جو لوگ وباء سے متاثر ہوئے اور جنہوں نے اس سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کی ان کے سلسلہ میں بھی کافی اندیشے اور خدشات سامنے آئے۔آکسیجن کی کمی کی بنا‘آکسیجن کا استعمال بھی مسئلہ بن گیا اور چہرے پر ماسک لگانا بھی۔پہلے بلیاک فنگس آیا اور اب یہ رنگ بدل کر سفید ہوگیا۔شاید دونوں ہوں۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے نہیں صاحب آکسیجن سلینڈرکے استعمال سے یہ مہلک مرض لاحق ہوتا ہے۔کسی کاکہنا ہے ہوا میں موجود جراثیم جسم میں داخل ہوتے ہیں اس کی وجہ سے بلیاک فنگس کی شکایت پیداہوتی ہے۔پھر یہ بھی بات بیان کی گئی کہ اینٹی وائرل دواؤں کے استعمال سے جسم میں قوت مدافعت کم ہوجاتی ہے اس لئے یہ مرض لاحق ہوجاتا ہے۔کسی کا کہنا ہے کہ اسٹیروائیڈزکا استعمال اس کی اصل وجہ ہے۔حتی کہ بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک ہی ماسک لگاتار پہننے سے بلیاک فنگس کی بیماری پیداہوتی ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ جس رفتا سے وباء عام ہوتی جارہی ہے اسی رفتار سے غلط فہمیاں اور اندیشے بھی عام ہورہے ہیں۔لگتا ہے دونوں میں بڑی ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے۔ان اندیشوں کے طوفان میں ہمیں کیا کرنا ہے؟ اس کا جواب حاصل کرنے سے پہلے اپنے دل کو علامہ اقبالؒ کے اس شعر سے مطمئن کرلیجئے:
کانپتا ہے دل تیرا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو‘ بحر تو‘ کشتی بھی تو‘ ساحل بھی تو
دیکھئے!ہمارے پاس حقیقت معلوم کرنے کے کوئی مستند ذرائع نہیں ہیں‘اس لئے سنی سنائی یا اندازوں پر مبنی باتوں پر رائے قائم کرنا مناسب نہیں۔چونکہ وباء سے متعلق مختلف مسائل انتہائی پیچیدہ ہیں‘ ایسے میں دنیا بس اسی کی بات مانے گی جو سائنٹفک طریقے سے اپنے صحیح ہونے کے دلائل پیش کرے۔اس لئے ان تمام اندیشوں کی حیثیت بس کسی کی سوچ اور کسی کے اندازے کی سی ہے۔اس کو اسی حد تک رہنے دیجئے۔ رہی بات غلط فہمیوں کی ان کے سلسلہ میں یہ دیکھیں کہ اب تک پیش آئی وباؤں میں استعمال کی گئی ویاکسین کا کیسا اثر رہا؟یابات بڑی معروف ہے کہ ہر ویاکسین کے کچھ منفی اثرات ہوتے ہیں‘ لیکن بہت ہی کم۔آپ جائزہ لے کر دیکھ سکتے ہیں کہ اس سے قبل کی وباؤں جیسے ٹی بی‘ ہیضہ‘ طاعون‘چیچک‘خسرہ‘پولیو وغیرہ کے موقع سے استعمال کی گئیں ویاکسین کے کیسے اثرات رہے؟ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی رپور ٹ کے مطابق پولیو کے لئے لگائے گئے20سے30لاکھ ٹیکوں میں صرف ایک کا مضر اثر رہا۔خسرہ کے لئے لگائے گئے 10لاکھ ٹیکوں میں سے ایک کامضر اثر رہا۔ٹی بی کے 50ہزار ٹیکوں میں ایک نے مضر اثر ڈالا۔اس طرح کی تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ ہرویاکسین کا منفی اثر یا مضر اثر رہتا ہے لیکن نا کے برابر۔
حقیقت پر مبنی معلومات حاصل کرتے ہوئے ہمیں اندیشوں سے محفوظ رہنا چاہئے اور خواہ مخواہ خوف وہراس کاماحول پیدا ہونے نہیں دینا چاہئے۔رہی بات کرونا وباء سے متعلق دوسرے مہلک اثرات کی۔ہمارا خیال ہے ان میں تجربے کم اوراندازے زیادہ ہیں۔دنیا آج اس بات پر متفق ہے کہ اس وباء سے متعلق اب تک جتنی بھی پیش رفت ہوئی ہے وہ محض تجرباتی ہے۔لہذا کسی کے بس میں نہیں کہ اس وباء کے ختم ہونے یا پھیلنے یا پھر اس کے مضرا ثرات کے ضمن میں قطعی طور پرکچھ کہہ سکے۔
‘ان حالات میں پہلا سوا ل ذہن میں ابھرتا ہے‘پھر ہمیں کرنا کیا چاہئے؟ پہلی بات دل کویہ سمجھانی چاہئے کہ مصیبتیں اور پریشانیاں منجابب اللہ ہوتی ہیں۔قرآن مجید ہمیں حکم دیتاہے کہ ہم ایسا ہی کہیں۔(دیکھئے سورہ التوبہ آیت51)۔دوسری بات یہ کہ ہمیں بے خوف وخطر‘ مومنانہ شان کے ساتھ زندگی بسر کرنی چاہئے۔اللہ اور اسکے رسولﷺ پر ایمان رکھنے والے نہ حالات سے گھبراتے ہیں اور نہ ہی حالات سے کسی کو بے وجہ متاثر ہونے دیتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا مذکورہ بالاشعر ہماری اسی قلندری اور بے نیازی کو ظاہر کرتا ہے۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ جس حدممکن ہو احتیاط برتیں‘ امت کے علماء اور اکابرین کی نصیحتوں پرتوجہ دیں۔حکومت کی جانب سے جاری کردہ پابندیوں کا ممکن حد تک لحاظ رکھیں۔ہمیں اللہ کے رسولﷺ کی یہ نصیحت ہمیشہ دیا رکھنی چاہئے کہ اونٹ کو باندھ کر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنا چاہئے۔احتیاط برتنا گویا اونٹ کو باندھ دینا ہے۔ اب اللہ تعالیٰ پر بھرپور توکل کیجئے‘وہی مشکل کشا اور کارساز ہے۔انشاء اللہ حالات نہ صرف جلدبہتر ہوں گے بلکہ ہمارے لئے یہ ابتلاء اور آزمائش کے دن دنیامیں رہ کر آخرت کی تیاری کاذریعہ بنیں گے اور بندگان خدا کو اس جانب متوجہ کرنے کا محرک بنیں گے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!