میری نظر کو چاہیے وہی چراغ دور کا

مضمون نگار: عبدالکریم بڑگن الکل

0
Post Ad

میری نظر نے دنیا کے بے شمار نظریات کو نظر ملا کر دیکھا لیکن میری نظر کو ثبات حاصل نہ ہوسکا۔ بے چینی اور بے قراری کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ روس کے نظریہ کمیونزم کو ٹوٹتے بکھرتے دیکھا جہاں مساوات کا درس دیا جاتا ہے ۔ پروفیسر ہل چلاتا ہے کاشتکار اسکول میں سبق پڑھاتا ہے ڈاکٹر جھاڑو دیتا ہے، میں نے پوچھا کہ ہہ عدم توازن کیوں ہے ؟ تو جواب ملا کہ ہم مساوات کا درس دیتے ہیں . ہمارے درمیان کوئی بڑا چھوٹا نہیں بلکہ سب یکساں ں۔ستر سال میں یہ نظریہ انتہائی ناکام ثابت ہوا ۔اور وہ خود ماسکو میں پنپ نہ سکا۔
نام نہاد جمہوریت جس کے کڑوے کسیلے پھل اہل مغرب نے چکھ لیے، اس کی تہہ میں دنیا پرستی اور انانیت کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
ایک وقت ایسا آئے گا کہ نام نہاد جمہوریت خود واشنگٹن اور نیویارک میں دم توڑ دے گی اور اپنے بچاؤ کے لئے لرزہ براندام ہو گی۔

ادھر ہمارے ملک ہندوستان میں غالب رجحان ھند تو کی تحریک کا ہے۔ یہ تحریک ساورکر کے ھندتو نظریے پر مشتمل ھے۔1933 میں ساورکر نے اپنے نام کے بغیر ، ایک مراٹھا کے نام سے ایک کتاب شائع کروائی تھی۔ اس میں ہندوتو کے نظریے کی وضاحت کی گئی ہے ۔ ساورکر ایک قوم پر ست اور دہریہ آدمی تھا۔ اس کے نظریات کو آر ۔ایس ایس کے سر سنگھ چالک مادھوراو گولوا لکر نے پر کشش جامہ پہنا کر ہندو عوام میں مقبول کیا ۔جس کے کڑوے کسیلے پھل اور اس کے اثرات کو ہر شہری محسوس کر رہا ہے ۔ بلکہ پچھلے دو سال سے خاص طور پر پر اقلیتی طبقے مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا اور اس کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا کہ مسلمانوں کو ملک بدر کیا جاے اور دوسرے درجہ کا شہری بنا کر رکھا جائے۔ لیکن خالق کی مرضی کچھ اور ھی تھی۔ اتنا تو معلوم ہو گیا کہ اس پینڈو مک وباء کے ذریعے کلیت پسندانہ منصوبوں کا نفاذ بہت حد تک متاثر ھوا۔لیکن ختم نہ ہوا۔
ہندوستانی تناظر میں یہ شعر آپ کی نظر کرتا ھوں کہ

کشتی کو بچا لو موجوں سے
طوفان کی نیت ٹھیک نہیں

اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں ہیں کہ انسان چاہے وہ ہر طرح کی دولت سے مالا مال ھو، کتنی ہی تدبیریں کر لے وہ قدرت کے ہاتھوں بے بس ھے۔ یہ ظلم و بربریت کا دور بھی خدا نے چاہا تو ختم ہوگا۔ آج انسانیت امن و سکون کی متلاشی ہے لیکن اسے سراغ نہیں مل رہا ہے۔ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جن کے سامنے سچائی آنے کے باوجود بھی آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں ۔
آنکھیں بند کر لینا کوئی دانشمندی کی علامت نہیں ۔بلکہ آنکھیں کھولنا ،حالات کا جائزہ لینا ، انسانیت کی مرہم پٹی کرنا . اسے سہولیات بہم پہنچانا اس کے دکھ درد میں کام آنا، راستہ دکھانا ،ان کے ساتھ میل محبت کے ساتھ رہنا، دراصل دانشمندی ھے ۔فلاح انسانیت ، نجات انسانیت، رحمت انسانیت کی خوشبو مجھے محسن انسانیت کی زندگی میں نظر آتی ہے جس نے مدھم نہ پڑ نے والا ابدی چراغ روشن کیا۔

موجودہ زمانے کے چراغ ایسے ھیں ، جو روشنی کے بجاۓ تاریکی بکھیر رہے ھیں۔ کیونکہ ان کے خزانوں میں تاریکی کے سوا کچھ اور نہیں ہے، جو چیز ان کی جھولی میں موجود ھے اسی کی نشرواشاعت میں اپنی عمر عزیز کھپا ے جارہے ہیں۔ نادانوں ں کو یہ بات نہیں معلوم کہ وہ انسانیت کو فائدہ نہیں ضرر پہنچا رہے ھیں۔ لوگوں نے اپنے طور پر جو نظریات کے چراغ جلائے ہیں عنقریب وہ بجھا چاہتے ھیں۔ اب انسانیت کو ایسے چراغ کی ضرورت ہے جس کا تذ کیرہ ہم نے اوپر کی سطروں میں کیا ہے ۔ یہ چراغ آخری نبی نے خالق کائنات کے حکم سے روشن کیا تھا۔
دنیا نے بہت سے نظریات کو برت کر دیکھ لیا۔نہ اسں میں قلبی سکون ھے نہ اعتدال ۔
اعتدال ھے تو اسی چراغ میں، مساوات ھے تو اسی چراغ میں، رحمت انسانیت ھے تو اسی چراغ میں۔ فرد کا ارتقاء، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل، اس میں موجود ھے۔یہ چراغ ایسا نظام عطا کرتا ہے جس میں ایک عورت سونا اچھالتے ھوے ایک مقام سے دوسرے مقام تک جاے گی لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہ ھوگا۔ وہ چراغ ایک انقلاب بن کر چھا جاے گا۔ عامر عثمانی نے کہا تھا کہ
جو رک سکے تو روک دو یو سیل رنگ و نور کا
میری نظر کو چاہیے وہی چراغ دور کا
کیا آپ بھی اس دور کے چراغ سے اپنے آپ کو منور کرنا چاہیں گے؟ جو تمہیں اس دنیا میں بھی روشنی دےگا اور آخرت میں بھی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!