دوکہانیاں 

محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک۔ موبائل:9141815923

0
Post Ad

۱۔ نقش ِ قدم

”لوگوں نے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑئی تھی اور ہم سالہاسال سے عدالتوں میں مقدمات لڑرہے ہیں، لڑتے لڑتے پہلے پردادا کا انتقال ہوگیا۔ پھردادا گذرگئے۔ آخر ہم کب تک یہ مقدمات یوں ہی لڑتے رہیں گے اباجان؟“سید وارث نے پوچھا تو والد محترم سید غوث نے شاہانہ انداز میں کہا”جمہوری دور میں سب سے بڑا ہتھیار مقدمات ہی ہیں۔ جو عدالت نہ دیکھے وہ میرے نزدیک دنیا میں پید اہی نہیں ہوا۔عدالتوں میں ٹہر کر یہ کہناکہ ہماری جائیداد فلاں اور فلاں ہے۔ اس سے معلوم ہوتاہے کہ ہم اسی ملک کے رہنے والے ہیں“

سید وارث نے کہا”وہ تو ٹھیک ہے اباجان، لیکن مرنے کے بعد بھی کیا یہی پوچھاجائے گاکہ کتنی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے لڑائی لڑی گئی؟اور جن بزرگوں نے جائیداد کاتحفظ کرنے میں کامیابی حاصل کی اورمقدمہ جیت گئے تھے ان کے حق میں آیا جنت لکھی جائے گی؟“

والد محترم سید غوث برہم ہوگئے اور انھوں نے کہا”ابھی تمہیں تمیز سیکھنے کی ضرورت ہے سید وارث،اپنے آباء واجداد کے نقشِ قدم پر چلنے کی بجائے الٹے سوالات کرنے لگے ہو، آئندہ اگرتم نے اپنی روشن نہیں بدلی تو ساری جائیداد سے عاق کردوں گا“یہ انتباہ دے کر سید غو ث بڑی تیزی سے اپنے حجرے میں داخل ہوگئے۔

____________

۲۔ وقت کی گواہی

وہ لڑکا کافی دن سے فون کررہاتھااورمجھ سے ملنے کے لئے وقتاً فوقتاً دفتر بھی چلاآتا۔ میں آخر اس سے کیاکہتا؟ وہ بضد تھاکہ اس کو اس کی اراضی چاہیے اور میں دیکھ رہاتھاکہ وہ مقدمہ طویل ہوگا اور اس کی طوالت کو لڑکا برداشت نہیں کرسکتا۔ میں اس سے اِدھر اُدھر کی باتیں کہہ سن کروہاں سے اٹھ جاتا۔ وہ بھی واپس اپنے گھر چلاجاتا۔

تین چار ماہ یہی کچھ ہوتارہا۔ پھر ایک دن اس کے صبر کاپیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس نے مجھے سخت سست کہا۔ کام چور اور نکما تک کہہ ڈالا۔نوجوانوں کو آگے بڑھانے کے بجائے ان کوشکست کھاجانے کاخوف دِلانے والے دراصل بزدل ہوتے ہیں جن میں سے آپ بھی ایک ہیں۔

مجھے غصہ تو بہت آیالیکن نوجوان کی باتوں کاکیابرا ماناجاسکتاہے؟ پھر وہ چلاگیا۔

آج بیس سال بعد وہ مجھ سے ملنے آیاہے۔ میں نے اس کو میرے کمرے کے اندر ہی بلالیا۔ طبیعت ناساز تھی۔ چل چلاؤ کاوقت تھا۔ پہلے تو میں اس کو پہچان ہی نہ سکا۔ اس نے اپنے بارے میں بہت سی باتیں کہیں لیکن مجھے کچھ یاد نہ آسکا۔ یادداشت بھی کمزور ہوچکی تھی۔

لیکن وہ پھر بلک بِلک کرروتے ہوئے بولا”جناب، آج میں اپنی اراضی کامقدمہ ہارچکاہوں، آج میں پوری طرح برباد ہوگیا، اوں وں وں…“ مجھے اچانک وہ دبلا پتلا،سانولا سا،نوجوان یادآگیا۔ مجھے اطمینان ہوگیاکہ میری سوچ اور صلاح دونوں درست تھیں اور یہ بات وقت نے ثابت کردی تھی۔

نوٹ:۔ اگر کہانیاں اچھی معلوم ہوں تو دوسروں تک پہنچانے کی زحمت بھی گوار اکریں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!