ابنِ مریم ہوا کرے کوئی!

رخسانہ نازنین، بیدر۔ کرناٹک۔9986143295

0
Post Ad

”آپ handicapped ہیں نا؟ کیا پرسنٹیج ہے؟”
یہ سوال اکثر معذورین سے کیا جاتا ہے. انکی محرومی کی تصدیق انہی سے کی جاتی ہے. اور پھر انہیں مفید مشوروں سے نوازا جاتا ہے کہ وہ اپنی محرومی سے کس قدر فائدہ اٹھا سکتے ہیں! معذوری کے تناسب سے سرکاری اسکیموں کا کتنا فائدہ اٹھا سکتے ہیں جو انکے لئیصرف ایک فریب ہیں! مگر وہ بے چارے اس فریب کے جال میں الجھ کر مختلف دفاتر کے چکر لگاتے رہتے ہیں.کبھی پنشن میں اضافے کے لئے، کبھی روزگار کے قرض کے لئے، کبھی گھر کے لئے، کبھی وہیل چئیر اور بائیسکل کے لئے (سنا ہے اب بائیک بھی ملنے لگی ہے) یہ امیدیں بارہا ٹوٹتی ہیں وہ ہر در سے مایوس لوٹتے ہیں. طویل قطاروں میں بھوکے، پیاسے کھڑے سارا سارا دن اپنی باری آنے کا انتظار کرتے ہیں. افسران کے تلخ وترش روئیے جھیلتے ہیں مگر سب بے سود! تمام اسکیمیں صرف درج ہوتی ہیں کبھی روبہ عمل نہیں لائی جاتیں. انکے حصے میں صرف مایوسی آتی ہے. معذوری کا تناسب پوچھنے والا بے رحم معاشرہ کبھی یہ نہیں پوچھتا کہ ” انکی تکلیفیں کیا ہیں؟ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے وہ کس حد تک دوسروں کے محتاج ہیں؟ انکی کفالت کون کرتا ہے؟ اور اسکے لئے کتنے احسان جتائے جاتے ہیں؟ کیا ماہانہ ملنے والی ہزار پانچ سو پنشن انکی ضروریات کے لئے کافی ہے؟ کیا کبھی کسی نے انسانیت کے ناطے انکی مالی مدد کی ہے؟ اور اگر کی بھی ہے تو اسے اپنے مفاد کے لئے کتنی تشہیر کی ہے؟ انکی غیرت اور خودداری کو کتنا مجروح کیا ہے؟ انہیں جذباتی سہارے کی بھی تو ضرورت ہوگی! کیا کبھی کسی نے انکا ہاتھ تھامنے کی کو شش کی کہ وہ بھی گوشت پوست کے بنے انسان ہیں جن کے سینے میں دل ہے! اس دل کے جذبات واحساسات کا تناسب بھی تو پوچھا جائے کبھی!!!
3 دسمبر عالمی یوم معذورین کے موقع پر ہر سال حکومتیں معذورین کے لئے مختلف اسکیموں کا اعلان کرتی ہیں. اس دن بہت کچھ ہوتا ہے. ان معذورین کو اعزازات سے نوازا جاتا ہے جنہوں نے کوئی نمایاں خدمات انجام دی ہیں. اور ان اداروں اور شخصیات کو بھی ایوارڈ تفویض کئے جاتے ہیں جنہوں نے معذوروں کی فلاح وبہبود کے لئے اپنی خدمات پیش کیں. بہت سارے وعدے کئے جاتے ہیں کہ سبز خواب دکھانا بہت آسان ہے! شام ڈھلتے ہی سارے وعدے ارادے ٹوٹ جاتے ہیں. اور پھر سال بھر وہ امید کے دئیے جلائے ایک نئی صبح کا انتظار کرتے رہتے ہیں!
مثبت اور منفی پہلو زندگی کے وہ رخ ہیں جو انسان پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں. افسوس کہ معذورین کی زندگی میں مثبت پہلو بہت کم ہوتے ہیں. کیونکہ یہ صحت مند معاشرہ انہیں ذہنی اور جذباتی طور پر اس طرح مفلوج کردیتا ہے کہ وہ مایوسیوں کے اندھیرے میں کھوئے رہتے ہیں! جسمانی طور پر معذوری تو انکا مقدر ہے لیکن سماج انہیں ذہنی اور جذباتی طور پر بھی مفلوج کئے رہتا ہے. ہر سوال انکی ذات کو مجروح کرتا ہے، ہر ترس کھاتی نظر انہیں چھبتی ہوئی لگتی ہے! کاتب تقدیر کا لکھا وہ ٹال نہیں سکتے اور دنیا والوں کے سوالوں سے بچ نہیں سکتے!
ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے جینا کتنا دشوار ہوتا ہے اگر معاشرے کو اسکا احساس ہوجائے تو انکے دکھوں کا رتی برابر تو ازالہ ہوجائے. مگر یہ بات دیوانے کا وہ خواب ہے جو کبھی تعبیر نہیں پاسکتا!
بلا جنسی تفریق معذوری وہ محرومی ہے جو تاعمر ایک انسان کو بوجھ بنائے رکھتی ہے. اس سے وابستہ ہررشتہ اس بوجھ کو اٹھانے پر مجبور رہتا ہے. معاشی طور پر بھی وہ دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں سماج میں معذوروں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر جتنا بھی لکھا جائے کم ہے. صرف ایک دن کی ہی نہیں انہیں ہر دن، ہر لمحہ توجہ کی ضرورت ہے. اسلام بھی معذورین کی مدد کرنے اور ان سے اچھا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہے. معذورین کے زخموں کو ہرا کرنے کے بجائے ان پر مرہم رکھنے کا چلن ہوجائے یہی انکے لئے سب سے بڑی مدد ہو گی. انکے مایوس دلوں میں امیدوں کی شمعیں روشن کی جاسکتی ہیں. معاشرے کے مخیر حضرات اگر طرف توجہ دیں تو انکی مالی مدد بھی ہوجائے گی جو اہل خیر کے لیے دنیا وآخرت میں سرخروئی کا باعث ہوگی.
معذورین کے تئیں اپنی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے. انہیں سماج کا ایک مخصوص طبقہ سمجھنے کے بجائے ایک حصہ سمجھا جائے.حوصلہ افزا سلوک انکے دل میں جینے کی، خوش رہنے کی امنگ جگاتا ہے. اور مثبت رویہ انکے اعتماد کو مستحکم کرتا ہے. ر وئیے اور لہجے قاتل بھی ہوتے ہیں اور مسیحا بھی. اور یہی انہیں زندگی بھی دیتے ہیں اور موت بھی. ذراسی توجہ، تھوڑی سی اپنائیت انکے لئے تریاق ہے جو شب وروز زندگی کا زہر پیتے ہیں. انہیں Handicapped نہیں بلکہ ایک مکمل انسان سمجھا جائے. انکی کسی ایک کمزوری کو انکی بے شمار خوبیوں پر ترجیح دے کر نظر انداز نہ کریں. اکثر انکا استحصال انکے اپنے ہی کرتے ہیں. احسان جتا کر ہر لمحہ انکی روح کو زخمی کرتے ہیں.
ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ معذورین پر مشتمل ہے مگر انہیں مسلسل متواتر اور مستقل راحت پہنچانے اور سہولیات فراہم کرنے کے متعلق کوئی نہیں سوچتا جو کچھ ہوتا ہے وہ عارضی ہوتا ہے.. اسی لئے سماج یا حکومت کی طرف سے کی جانے والی اکثر امدادِ معذورین کی کوششیں اپنی تشہیر اور مفاد کی خاطر معذوروں کے استعمال کے سوا کچھ نہیں ہوتیں…. جبکہ وہ ایک سچے مسیحا کے منتظر ہوتے ہیں جو انکے دل اور روح پر لگے تمام زخموں کو مندمل کرسکے….
”ابن مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی ”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!