روداد سفر كوكن

0
Post Ad
ممبئی کے بیانڈ اسٹانڈ ( سمندری ساحل ) پر بیٹھے ہوئے خیال آیا کہ چالیس سال پہلے جہاں میں ٹیچر کی حیثیت سے دو سال کام کیا تھا وہاں کا دوره کیا جائے ۔ موربا گوریگاؤں میں جناب امان الدیں انعمدار وظیفہ یاب لکچرر ، رکن جماعت (امیرمقامی ) بھی ہیں اُن سے بات کی تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ ليكن میں نے ان سے کہا کہ میرا یه سفر براے سفر نہیں رہیگا بلکہ دعوتی نوعیت کا رہیگا تو وہ اور زیاده خوش ہوگئے۔
5 دسمبر 2022 ، تاریخ طے ہوئی ، ممبئی سے مان گاؤں کے لئے VT سے ہمارا سفر الحمد لله شروع ہوا۔ اسکی بھی دلچسپ کہانی ہے 17 نمبر پلیٹ فارم کی ٹرین میں بیٹھا تھا مسافروں سے معلوم کیا تو کہا کہ یہ نہیں جائیگی تو فورا بیاگ لے کر نیچے اتر گیا ، چائے کی دوکان والے سے پوچھا تو کہنے لگا کہ 16 نمبر والی پلیٹ فار م سے جائے گی تو ٹرین جا ہی رہی تھی دوڑ کر پکڑ لیا ، 10:30 بجے جب ہماری ٹرین مان گاؤں پهنچی تو انعمدار سر کا ایک شاگرد کا ر لیے منتظر تھا۔ کار میں سوار ہو کر موربا پہنچے امیر مقا می سے ملاقات ہوئی۔ ہوناتو یه چاہیے تھا کہ موربا سے گوریگاؤں جاتے ، لیکن امیر مقامی نے بتایا کہ سری وردهن جانا ھے ۔ جہاں حفظ اور عالمیت کا مدرسہ ھے چنانچه ہم مدرسه پہنچے۔ مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی اور دیگر اساتذه سے بھی ۔ مدرسه بہت شاندار ، وسیع مسجد ، اساتذه کے کمرے، طلبہ کے کلاس رومس مطبخ بہت ھی سلیقه مند تھے۔ سب کے سامنے امیر مقامی نے اردو اور کوکنی زبان میں بہت هی صاف انداز سے بات رکھی کہ ہم لوگ جماعت اسلامی والے ہیں ، جماعت کو قائم ہوئے 75 سال ہوچکے ہیں ، 22 جنوری 2023 کو ہم ایک ملی پروگرام کرنا چا ہتے ہیں  مقرر کی حیثیت سے آپ کو مدعو کرنے آئے ہیں ۔ جماعت ہر مکتبه فکر کے لوگوں کو جوڑ کر ان میں دینی بیداری اتحاد واتفاق پیدا کرنا چا ہتی ھے ۔ بڑے غور سے علماء ومفتیان اکرام نے ہماری بات کو سنتے رہے۔ آنے اور شرکت کا وعدہ کیا۔ ذمہ داران مدرسہ نے ہماری ضیافت بھی کی ۔ ملت  میں کام کےمختلف پہلوؤ ں پر اچھی گفتگو رہی ۔ وہاں سے مہسلہ آئے عصر کی نماز پڑھی ۔ امام جامع مسجد مولانا عبد المعيد مدنی نے بڑی محبت سے چائے کے لے اپنے گھر بلایا ۔ بذریعه پانچ میں ان کے گھر پہنچے۔ گھر بہت ھی عالیشان ، شخصیت بھی باوقار طول و عریض باریش مسلکن اہل حدیث ، بڑی محبت واخوت سے گفتگو کی ۔ گھر میں بڑی لائبرری ہے زیاده تر عربی کتب موجود تھے اردو بھی تھے لیکن تعداد میں کم ۔ میں نے لا ئبرری کا ایک غائیر نظر دوڑائی لیکن کہیں مجھے تفهیم القرآن نظر نہ آئی میں نے امام مسجد سے پوچھ ہی لیا ليكن انہوں نے ایک بجھا سا جواب دیا۔ محفل میں ایک صاحب جن کا نام محمد فاروق ہرزک ہے شریک تھے درا گفتگو میں کچھ آگے ہی تھے۔ انہوں نے اپنا تعارف اس طرح کرایا کہ پہلے میں بھی جماعت اسلامی میں شامل تھا غیر مسلموں میں کام کرتا تھا لیکن جیسے ھی مجھے مولانا مودودی کی کتاب خلافت وملوكيت ہاتھ لگی میرا دل بدظن ہوگیا میں نے تو به کرلی اور کہا کہ میں خدا کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ اور آخرت میں نجات کے لئے میرا مخلصانہ مشوره ہے کہ تم جماعت چھوڑ دو۔ امیر مقامی نے کہا کہ تم کو مولانا مودودی سے اختلاف ہے تو اُن کی کتابیں مت پڑھو ، لیکن  ملت میں بگاڑ دور کرنے اور، انسانوں میں عدل و قسط قائم کرنے کا جو کام خدانے ہمارے ذمہ کیا ہے تو وہ تو آپ کو بھی کرنا ہے اور تمام مسلمانوں کو بھی کرنا ہے ۔ ہمارے ساتھ مان گاوں کے شکیل نامی ایک رکن جماعت بھی تھے بڑے سمجھدار تھے معاملہ فہم تھےانہوں نے بات کو فوری سم اپ کرکے فضا کو ہموار کیا ، ہرزک صاحب کا کوئی قصور نہیں تھا وه در حقیقت اپنے زعم میں ہماری آخرت کی کامیابی چاہتے تھے ، کار میں بیٹھنے تک بھی انہوں نے نصیحت کی که کریم بھائی میں آپ کا بہت مخلص ہوں پھر کہا کہ جماعت سے تو بہ کرلو ۔ ھم تو گئے تھے امام صاحب کو سمینار میں اظہار خيال کی دعوت دینے ، لیکن فاروق ہر زک نے اپنے من کی بات بتانا شروع کی تو ہمیں اس موقع پر حفیظ میرٹھی کا یہ شعر یاد آتا ہے
*موقع ومحل کوبھی دیکھتے نہیں کچھ لوگ*
*داستان سنانی ہے داستان سنائیں گے*
امیر مقامی انعمدار سر بھی بہت دلچسپ آدمی اور ادب لواز تھے۔ اشعار سنتے تو لطف لیتے پھر ان کے اندر جوش جب ٹھاٹے مارنے لگا تو یوں براجمان ہوئے
میں پھول پیش کرونگا وہ سنگ سمجھیں گے
پیام امن کو وہ اعلان جنگ سمجھیں گے
جبیں شناس ھوں مجھ میں یہ صفت ہے پانے کی
سب اپنے رنگ سا میرا بھی رنگ سمجھیں گے
خلش برائی کبھی حاسدوں کی مت کرنا
نہیں تو لوگ تیرا دل بھی تنگ سمجھیں گے ۔
پہلے دو دنوں میں جن مقامات کے دورے ہوئے وہ یوں ہیں۔
سری وردھن ، مہسلا ، مور با ، مان گاؤں ، سائی ، راجکوٹ ، امبيت ، تلنگا ، ماپریل، لور توڑیل ، مہاڈ  اور چھوٹے چھوٹے بستیاں بھی جن کا نام یاد ره نه
سکا ۔
جن علماء سے ملاقاتیں رہیں وہ یوں ہیں
مفتی رفیق پورکرمدنی صاحب ،
مولانا عمر امبیل کر ، مولانا ار شدسائٹو لكر ، مولانا محمد رافع گیا وی ( رکن جماعت گورے گاؤں ) ۔
اب ذرا امیر مقامی کے تعلق سے انعمدار سر کا وطن اکولہ ، معاشیات میں ایم۔ کام کیا ھے انجمن خيرالاسلام جونیر کالج میں لکچرر ہو کر 2016 میں وظیفہ یاب ہوئے۔ لیے سڑک ایک عالیشان چار منزلہ مکان تعمیر کر کے دوسرے فلور پر مقیم ہیں۔ گراونڈ فلور پر آپ نے عالیشان ہارڈویر ، اور الیکٹرک دوکان کھولا ہے اسكى مکمل ذمہ داری اپنے چھوٹے بھائی سلیم  ، بڑےفرزند فہیم کے حوالے کیا ہے ۔ کاروبار اُسی طرح چلتا ہے جس طرح کسی مہار واڑی کا چلتا ہے ، پہلے فلور پر ایک بڑا کمرہ جماعت کے اجتماعات کے لئے وقف کیا ہے جہاں دعوتی کتب فولڈرس کتابچے اور مراٹھی لڑ پچر موجود ہے ۔ ۔ دوسرے فلور میں مکان ہے دو بہو یں ، فہیم بڑے فرز ند اور اطراف میں 6 بچے تیسرے فلور میں اپنی رہائش گاہ بڑے سلیقے سے سجارکھا ہے مراٹھی کتابیں جماعتی لائبرری ، مطالعہ ، تیاری وغیرہ ، مراٹھی پر اور انگریزی پر عبور حاصل ہے ، خوش مزاج ہیں ، مہمان نواز ہیں ۔ جماعت کے کام کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ۔ اس 19 دسمبر 2022 کو موصوف کو آکولہ پروگرام کے لئے دعوت دی گئی تھی ، وطنی بھائیوں میں تقریر کرنا تھا مراٹھی میں ۔ ان کے قبضہ قدرت میں ایک ٹو وہیلر اور دو عدد فور وہیلر ہیں ۔ ضرورت کے حساب سے گاڑیوں کا استعمال  ہوتا ہے ِ غلام بھائی جماعت کے رفیق ہیں اور دوروں میں ڈرائیونگ کی خدمات انجام دیتے ہیں ۔ ان کی عدم موجودگی میں مہاڑ ، موربا ، مان گاؤں جا آنے کی ذمہ داری خاکسار کے کمزور کندھوں پر تھی ۔
(جاری …… )
قلم : عبد الکریم بڑگن
الكل کرناٹک
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!