دکن کے چند قلمکار (مضامین)

تبصرہ نگار:محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک موبائل:۔ 9141815923

1
Post Ad

کتاب کا نام:۔ دکن کے چند قلمکار (مضامین)
مضمون نگار:۔ اسلم محبوب خان
صفحات:۔ 112
تقسیم کار:۔ کاغذ پبلشرز، زبیر کالونی، ہاگرگہ کراس،رنگ روڈ، گلبرگہ۔ 585104کرناٹک

تبصرہ نگار:محمدیوسف رحیم بیدری، بیدر۔ کرناٹک موبائل:۔ 9141815923

جناب اسلم محبوب خان”شہر اردو“ بیدر کے تاریخی تعلقہ اور علامہ عطاکلیانوی کی ادبی سرزمین بسواکلیان سے تعلق رکھتے ہیں۔درس وتدریس ان کاپیشہ ہے لیکن اپنے اساتذہ ئکرام ڈاکٹر اکرام باگ اور پروفیسر حمیدسہروردی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انھوں نے ادب کی شاخ فکشن کے بجائے تنقید کواپنایاہے، جس کی ضرورت ہردور میں محسوس کی گئی۔ اور اب تو یہ حال ہے کہ ہر قطعہ اپناتنقید نگاررکھتاہے۔ علاقہ حیدرآبادکرناٹک (نیانام کلیان کرناٹک) کو بھی ناقدین پید اکرنے ہوں گے۔ اگر ایسا نہیں ہواتو کہانہیں جاسکتاکہ اس علاقے کاادب کس کوڑے دان کی نذر ہوگا۔
اسلم محبوب خان نوجوان ناقد ہیں۔ ان کے تنقید ی مضامین کے دوسرے مجموعہ کانام ”دکن کے چند قلمکار“ ہے۔ جس میں 23شخصیات سے متعلق اپنی ناقدانہ آراء انھوں نے پیش کی ہے۔ ڈاکٹر وہاب عندلیب کے مطابق ”یہ جان کر مسرت ہوئی کہ اب اپنی پسند کی 23شخصیتوں پرمشتمل ان کے مضامین کامجموعہ ”دکن کے چند قلم کار“ منظر عام پرآرہاہے۔ یہ مضامین جو سوانحی، تعارفی اور تبصراتی ہیں، دکن کے عصری ادبی منظرنامے سے آگہی کاایک اہم وسیلہ ہیں“(بیک کوور، دکن کے چندقلم کار)
تنقیدی مضامین کے اس مجموعہ میں فکشن کی 7، سخن وری کی 6اور تنقید، تحقیق اور تعلیم کی 10شخصیات اس طرح جملہ 23شخصیات کے فن اور ان کی شخصیت پر خامہ فرسائی کی گئی ہے۔جس کاپیش نامہ مجتبیٰ نجم نے لکھاہے۔ وہ رقمطراز ہیں ”کافی مسرت تب ہوتی ہے جب نوجوان نسل اپنے فکروتدبر کی صلاحیتوں سے قلمکاروں کے فنون وشخصیات کا جائزہ لیتی ہے۔ اس فعل سے صحت مند ادبی مستقبل کی امیدیں جاگ جاتی ہیں۔ ان نئے نوجوان قلمکاروتجزیہ نگاروں میں اسلم محبوب خان کا بھی نام آتاہے۔ ادبی منظر نامہ پران کی گہری نظر ہے۔ فن کار کے فن کو مختلف زاویوں سے دیکھنا اور صحت مند ادبی نتائج اخذکرنا ان کاخاصہ ہے۔ (ص8) آگے لکھتے ہیں ”اسلم محبوب خان کے سبھی تجزیوں اور مضامین کی زبان عام فہم ہے اور ان کی نوعیت خالص تعارفی ہے۔ ایک عام قاری بھی ان مضامین کوسمجھ سکتاہے اور مثبت تاثر قائم کرسکتاہے“ (ص9)
مجتبیٰ نجم کے نزدیک یہ مضامین تجزیاتی اور تعارفی نوعیت کے ہیں۔ وہاب عندلیب انہیں سوانحی، تعارفی اور تبصراتی بتاتے ہیں۔ جو بھی ہو، دیکھتے ہیں کتاب کے اندرون میں اسلم محبوب خان نے کہاں کہاں اپنے فن کا کس قدرمظاہر ہ کیا ہے۔
کتاب میں فکشن کا حصہ پہلے رکھاگیاہے جس میں تجریدی اورعلامتی افسانے لکھنے والے دوفنکار پروفیسر اکرام باگ اور پروفیسر حمیدسہروردی، سادہ بیانیہ افسانے لکھنے والے نورالحسنین، ڈاکٹر کوثر پروین اورمحمدیوسف رحیم بیدری اور دوافسانچہ نگار صابر فخرالدین اور منظور وقار کے فن کاجائزہ لیاگیاہے۔ ان 7فنکاروں کے افسانوں یاافسانچوں ہی کو موضوع بنایاگیاہے۔ کسی کے ناول سے بحث نہیں کی گئی ہے۔
پروفیسر اکرام باگ پر ساڑھے پانچ صفحہ کامضمون ان کے افسانوں کے دوسرے مجموعہ ”اندوختہ“ کے حوالے سے ہے۔اسلم محبوب خان کے بموجب سماج اور ذات کے احساس کو علامتی بیانیہ میں (اکرام باگ) تحریر کرتے ہیں۔ ان کے افسانے تصوف اور تجسس دونوں سے متصف ہیں۔(ص12) آگے لکھتے ہیں ”اکرام باگ کے تجریدی افسانوں میں اکرام باگ کی شخصیت کو پڑھنے والے صاف طورپر پڑھ لیتے ہیں۔ اکرام باگ علامتی زبان میں قاری کی حسیات سے وابستہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشکل الفاظ میں بھی جدید علامتیں نکھر کرآتی ہیں۔ کہیں کہیں الفاظ اتنے مشکل ہوجاتے ہیں کہ بالکل اجنبی بن جاتے ہیں۔ اس کے باوجود اکرام باگ سکتے کے بعد قاری کو ہر چوتھے پانچویں لفظ میں متحرک کرنے کاکرشمہ انجام دینے میں کامیاب ہیں۔ (ص13)
اسلم محبو ب خان نے ان کے افسانوں میں فلسفہ اور نفسیات کی نشاندہی کی ہے۔ اور کہاہے کہ تجریدی افسانوں کی دنیا میں اکرام باگ کانام صف اول کے افسانہ نگاروں میں شامل ہے۔ جس سے اختلاف ممکن ہے۔ کیونکہ اس بات کوتسلیم کرلیاگیاتو اسی بیدر شہر کی سرزمین پرپیداہوئے علامتی افسانہ نگار جناب مظہر الزماں خان(حیدرآباد) کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔
پروفیسر حمیدسہروردی کے تعلق سے وہ لکھتے ہیں ”حمیدسہروردی کافن ملک وبیرون ملک چمکااور روشن ہوا۔ اردو دنیامیں آپ کانام تجریدی افسانوں اور نظموں کے وسیلے سے بڑے ادب واحترام سے لیاجاتاہے۔ جدید ادب آپ کامیدان عمل ہے۔ اور جدید ادب ہی کے آپ ترجمان ہیں۔ جدید ادب میں آپ کے افسانے اور نظموں نے یقینا اضافہ کیاہے۔ اسی لئے ہندوپاک کے ادب میں آپ کامقام روزروشن کی طرح عیاں ہے(ص21) ایک اورمقام پر حمیدسہروردی کے بارے میں انھوں نے لکھاہے ”ان (سہروردی) کافن ان کے افسانوں کی طرح پیچیدہ نہیں ہے۔ بلکہ ان کی شخصیت کی طرح سلجھاہواہے۔ حمیدسہروردی نے نئے ادب کی تخلیق میں نئے دور کے نفسیاتی، سماجی اور شخصی مسائل کو پیش کیا ہے۔ وہ اپنے آس پاس سے منظر اٹھاتے ہیں اور انہیں علامتی زبان میں پیش کردیتے ہیں (ص23) اسلم محبوب خان نے اس مضمون کی ترتیب میں عالمگیر ادب کے ”حمیدسہروردی، حیات اور ادبی جہات نمبر“ سے استفادہ کیاہے لیکن نتائج ان کے اپنے اخذکردہ ہیں۔ اورنگ آباد کے ناول نگار اور ڈرامہ نویس، خاکہ نگار اور فیچر نگار جناب نورالحسنین کے بارے میں ڈھائی صفحات ناکافی معلوم ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوں اور بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں ہی کاجائزہ لیاگیاہے۔ ان کے ناول سے تعرض نہیں کیاگیا۔ منظوروقار ایک معروف افسانچہ نگار اور مزاح نگار ہیں۔ ان کے افسانچوں کامجموعہ ”کانٹوں کاجھنڈ“ پر کئے گئے تبصرہ کو کتاب میں شامل کیاگیاہے۔ تین افسانچے بھی دئے گئے ہیں۔ اور لکھا ہے کہ ان کاہرافسانچہ عام آدمی کی رودادہے۔ یادگیر سے تعلق رکھنے والے بزرگ شاعر و ادیب جناب صابرفخرالدین مرحوم پر مضمون ان کے افسانچوں کامجموعہ ”ہاتھ سے نکلاوقت“ کے حوالے سے درج ہے۔ اور لکھا ہے کہ ان کے افسانچوں کا رجحان جدید اور فلسفہئ حیات سے منسلک ہے۔ کہیں نہ کہیں اسلامی اقدار اور قصص ان کے افسانچوں میں معنیٰ و مطالب کااظہار بن کر چلے آئے ہیں (ص33) ڈاکٹر کوثرپروین گلبرگہ کے افسانوی منظر نامہ پر ایک ابھرتا ہوا معروف نام ہے۔اسلم محبوب خان نے ان کی کتاب ”بن باس“ کی بنیاد پر یہ مضمون لکھاہے۔ فکشن کاایک اور نام جس کاتعلق فخردین نظامی کی سرزمین بیدر سے ہے، یعنی محمدیوسف رحیم بیدری کے افسانوں کے مجموعہ ”سکال“ کا موصوف نے سیرحاصل جائز ہ لیاہے۔اور لکھاہے ”محمدیوسف رحیم بیدری کارویہ نئے رجحانات سے متاثر ہے۔ اسی لئے ان کالہجہ بیانیہ اور مثبت سوچ کاحامل ہے۔ وہ قاری کوفکرانگیزی کی طرف لے جاتے ہیں اور سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ کہانی کارویہ ایجاب وقبول کی حد سے تجاوزکرتے ہوئے قاری کی اپنی زندگی میں پیوست ہوجاتاہے۔ جو افسانہ نگار کی کامیابی کی دلیل ہے(ص37.38) آگے لکھاہے، ان کے افسانوں میں غیرضروری طوالت اور تفصیل سے گریز کیاجاتاہے جس سے کہانی چست نظر آتی ہے۔ جابجا علامتوں کاہلکاہلکا استعمال کیاجاتاہے۔ وہ اقدار واخلاق سے دورجاتے سماج کاآپریشن کرتے ہیں اور اپنے افسانوں میں سماج کوآئینہ دکھانے سے نہیں چوکتے۔ ان کے افسانوں میں جدید عہد کی تمام ان سلجھی کہانیاں در آئی ہیں (ص40)
دوسرا حصہ6 شعرائے کرام سے متعلق ہے۔اورنگ آباد کے پروفیسر شاہ حسین نہری، گلبرگہ کے حامداکمل، کڑپہ (آندھرا) کے ڈاکٹر سیداقبال خسروقادری، شیموگہ کے پروفیسرسید شاہ مدار عقیل، یادگیر کے فضل افضل، اورپرلی ویجناتھ (بیڑ) کے سید اختر علی صادق اس حصہ میں شامل ہیں۔ پروفیسر شاہ حسین نہری کے بارے میں اسلم محبوب خان چاہتے تو اقتباساتی اد ب کے ذریعہ ان کے فکروفن پرلکھ سکتے تھے لیکن انھوں نے ایسانہیں کیا۔ اپنے قلم سے پورامضمون اپنے مطالعہ کی روشنی میں تحریر کیاہے۔ جس کے لئے میں انہیں مبارک باد پیش کرتاہوں۔ شاہ حسین نہری رباعیات کے حوالے سے مشہور ہیں۔ ایک آدھ رباعی مضمون میں ٹانک دیتے تو لطف بڑھ سکتاتھا۔ حامد اکمل کی شاعری کے بارے میں جناب خان کی رائے خوف پروف ہے، لکھتے ہیں ”حامد اکمل کی خوبی یہ ہیکہ ان کے اشعارمیں تنوع ہے۔ کبھی وہ روایتی لب ولہجہ اختیار کرلیتے ہیں، کبھی ان کی شاعری میں ترقی پسندیدیت کی بومحسوس ہوتی ہے۔ کبھی وہ جدید رجحان کے شاعر بن جاتے ہیں (ص49) لیکن پورامضمون اخلاص لگن اور جستجو سے لکھاگیاہے۔ اقبال خسر وقادری کامجموعہ ”جوانب“ کو بنیادبناکر لکھاگیامضمون تاثراتی ہوتے ہوئے بھی غیراہم نہیں ہے۔”سید شاہ مدار عقیل“ پرلکھاگیامضمون بھی اسی قسم کا ہے۔فضل افضل پرلکھتے ہوئے صاحب کتاب نے خود کو حاصل علم وفضل کے دریابہادئے ہیں۔ اور واقعی مرحوم فضل افضل کی شاعری اس لائق ہے کہ اس پر لکھاجائے اوراس میں چھپے ہوئے نئے نئے پہلو سامنے لائے جائیں۔ پرلی ویجناتھ کے اخترعلی صادق پر لکھاگیامضمون ان کی نثری نظموں کے حوالے سے ہے۔ قاری کومتاثر کرتاہے۔ان کی ایک مختصر نثری نظم ملاحظہ کیجئے۔
خوشیوں سے کہہ دوکہ
آئیں تو
دستک دے دینا
کہ گھر کے دروازے ہمیشہ
کھلے رکھے نہیں جاتے!
کتاب کا تیسرااور آخری حصہ ”تنقید، تحقیق اور تعلیم“ عنوان سے ہے۔ جس میں ڈاکٹر وہاب عندلیب، رؤف صادق، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، ڈاکٹر جلیل تنویر، محمود شاہد، ڈاکٹر مقبول احمد مقبول، ڈاکٹر حشمت فاتحہ خوانی، ڈاکٹر انیس صدیقی، ڈاکٹر محبوب ثاقب اور ڈاکٹر غضنفر اقبال کے فن پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ ڈاکٹر حلیمہ فردوس اورڈاکٹر انیس صدیقی سے متعلق مزید گوشوں کو سامنے لانے کی ضرورت تھی۔
ڈاکٹر وہاب عندلیب پر لکھ کر حق اداکیاگیاہے۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال کے بارے میں ساڑھے پانچ صفحات لکھے گئے ہیں، یہ مضمون کافی معلوماتی اور اہم ہے۔ ڈاکٹر غضنفراقبال کی ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ کتاب ”معنیئ مضمون“ کے مشمولات کی بنیاد پر لکھاگیاہے۔ اسلم محبوب خان رقمطراز ہیں ”غضنفر اقبال کی زبان میں شگفتگی اور ارد وکی لطافت وشیرینی کو واضح انداز میں محسوس کیاجاسکتاہے۔ ادبی حیثیت کے علاوہ وہ ایک اچھے انسان بھی ہیں۔ نئے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ادب کے بزرگ ادباء کے سامنے زانوئے ادب طئے (تہہ) کرنا ان کامزاج ہے۔(ص108)
کتاب کامصنف بالغ نظر ضرورہے لیکن ناقدانہ تعریف کے ہتھیار سے لیس ہے۔ تلخ ا ورمایوس کرنے والے جملوں کے بجائے میٹھے اور پیارے پیارے تنقیدی جملوں سے اپناکام نکالتاہے۔ دوسری طرف ارد و کتابوں کاالمیہ یہ ہے کہ اس کوپروف ریڈ ر میسر نہیں آتا۔ ”دکن کے چند قلم کار“ کتاب بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ کمپیوٹر آپریٹر کاکمال یہ ہے کہ اس نے کئی کئی الفاظ جگہ جگہ سے غائب کردئے ہیں اور پتہ بھی چلنے نہیں دیاہے۔اسلم محبوب خان کی پہلی کتاب ”تجدید“ ہے جس میں ان کی تنقیدی صلاحیتیوں کاجلوہ جابجا نظر آتاہے۔ میری دعائیں اسلم محبوب خان کے ساتھ ہیں۔”دکن کے چند قلم کار“ کتاب کے لئے میں ان کا شکرگذار اسلئے ہوں کہ کتاب کے عنوان میں ندرت ہے۔نئے پیرائے میں کتاب ترتیب دی گئی ہے، متاثر کرتی ہے۔ موصوف کی زبان ناقدانہ ہے۔ آئندہ یہ زبان مزید نکھرسکتی ہے شرط یہی ہے کہ وہ لکھنے کی طرف متوجہ رہیں۔ توقع ہے کہ ان کی تازہ ترین کتاب بھی جلد ہی منظر عام پر آئے گی۔

1 تبصرہ
  1. محمد یوسف رحیم بیدری کہتے ہیں

    شکریہ مدیراعلیٰ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

error: Content is protected !!